اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
بنائے، بلکہ معذرت اورخوشامد کرے، استاذ کی بدخلقی کی سہارکرے ، اس کی تندخوئی سے اس کے پاس جانا نہ چھوڑے، نہ اس کے کمال سے بداعتقاد ہو، بلکہ اس کے اقوال وافعال کی تاویل کرے، اس کی خدمت سے بلااذن نہ جاوے ، خواہ اذن صراحۃً ہو یا دلالۃً ، جس بات کے پوچھنے سے وہ منع کرے نہ پوچھا کرے، اس کی مخالفت یا اس کو تنگ نہ کرے ، حالت بعد وغیبت میں بھی اس کے حقوق وآداب کاخیال رکھے ، گاہ بگاہ تحفہ تحائف سے ، خط وکتابت سے اس کا دل خوش کرتا رہے ، غرض استاذ کی تعظیم اور ادب و احترام کا ہر موقع پر ہر طرح سے خیال رکھے ۔ (افادات مسیح الامت)اساتذہ کی تعظیم تعظیم خداوندی ہے۔ جو طالب علم، علم کا قدر دان ہوگا اور اس کو نعمت عظمی اور دولت بے بہا یقین کریگااور جس کے دل میں اللہ تعالیٰ اور اسکے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور محبت ہوگی تو یقینا اس کے دل میں استاد کی بھی عظمت ومحبت ہوگی کہ استاذ اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی تعلیمات وہدایات کو پہنچانے کاذریعہ اور وسیلہ ہے اور شریعت وسنت کو دوسروں تک پہنچانے والوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا خلیفہ قراردیا ہے ، پس استاذ کی تعظیم وادب درحقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ تعالیٰ ہی کی تعظیم وادب ہے۔ چنانچہ ابوداؤد شریف کی ایک روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بوڑھے مسلمان اورعالم وحافظ قرآن اورعادل بادشاہ کی عزت کرناخدا ہی کی تعظیم کی بات ہے۔ (حوالۂ بالا)ادب واحترام سے خیروبرکت کادروازہ کھلتا ہے حضرت اقدس تھانوی نوراللہ مرقدہٗ کے ملفوظات میں ہے کہ مجھ کو جو کچھ اللہ تعالیٰ نے عطافرمایا ہے، وہ اساتذہ اور بزرگوں کے ساتھ ادب ومحبت کا تعلق