اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
حقیقی طالب کبھی سیر نہیں ہوتا اور اس طرح علم کی طلب وجستجو کرتے کرتے علم کا یہ طالب جوں جوں ترقی کرتا رہتا ہے۔ یونہی اس کی پیاس بڑھتی جاتی ہے، کسی مقام پر سیرابی نہیں ہوتی بلکہ اندر سے ’’ہل من مزید ‘‘ہی کی صدا آتی رہتی ہے۔ حدیث شریف میں فرمایا گیا: مَنْھُوْمَانِ لَا یَشْبَعَانِ مَنْھُوْمٌ فِی الْعِلْمِ لَا یَشْبَعُ مِنْہُ، وَ مَنْھُوْمٌ فِی الدُّنْیَا لَا یَشْیَعُ مِنْھَا(مشکوٰۃ) دو بھوکے اور حریص کبھی سیر نہیں ہوتے ایک تو علم کی حرص اور بھوک رکھنے والا کہ وہ اس سے کبھی سیر نہیں ہوتا اور دوسرا دنیا کی حرص اور بھوک رکھنے والا کہ وہ اس سے کبھی سیر نہیں ہوتا، ایک دوسری روایت میں ہے جس کے راوی ابو سعید خدری ہیں فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لَنْ یَّشْبَعَ الْمُؤْمِنْ مِنْ خَیْرٍ حَتّٰی یَکُوْنَ مُنْتَھَاہٗ الْجَنَّہُ ( رواۃ الترمذی) مومن کا پیٹ خیر کی یعنی علم کی بات سننے سے کبھی نہیں بھرتا یہاںتک کہ جنت ہی اسکا منتہا ہوتی ہے۔ علامہ ابن القیمؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ علمی بھوک اور علم سے عدم سیرابی ایمان کے لوازمات اور مومن کے اوصاف میں سے ہے اور جنت میں داخل ہونے تک مومن کا علم کے ساتھ یہی معاملہ رہتا ہے۔ (العلم والعلماء) اسی مضمون کو شاعر بیان کرتا ہے ؎ مکتب عشق کا انداز نرالا دیکھا ٭ اسکو چھٹی نہ ملی جس کو سبق یاد ہوا