اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
سے کاٹنے میں شریک رہے، کاٹ کر جمع شدہ ذخیرہ کے پانچ گٹھر بنائے ،طلبہ نے عرض کیا کہ حضرت! پانچ گٹھریاں کیوں بنائی گئی ہیں، ہم تو چار ہیں، فرمایا اور میرا حصہ کہا گیا؟ یہ کہہ کر چار بڑی بڑی گٹھریاں طلبہ کے سروں پر اور ایک اپنے سر پر رکھ کر یہ قافلہ چلا ، شہر میں آیا اور بازار کے ایک حصہ میں سے گذرا، ان طلبہ کو تو ممکن ہے کہ سر پر گھاس رکھ کر بازار میں سے گذرنے پر کچھ عار آرہا ہو، لیکن حضرت کی بے نفسی کا عالم یہ تھا کہ کہ گویا اپنے کو اس بوجھ کے اٹھانے کا اہل اور مستحق سمجھ کر شہر سے گذرہے تھے ،دیہات والے بھی اب جسے پسند نہیں کرتے، حضرت کے یہاں وہ بوجھ ایک معمولی بات تھی۔ (پچاس مثالی شخصیات)حضرت مولانا یعقوب صاحب کی تواضع اور کسر نفسی حضرت تھانوی ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت مولانا یعقوب صاحبؒ میں تواضع کا وصف نمایاں تھا، دوران درس جہاں کسی مقام پر شرح صدر نہ ہوا جھٹ اپنے کسی ماتحت مدرس کے پاس کتاب لئے جا پہنچے اور بے تکلف کہا کہ مولانا! یہ مقام میری سمجھ میں نہیں آیا، ذرا اس کی تقریرکردیجئے،چنانچہ بعد تقریر کے واپس آکر طلبہ کے سامنے اس کو دہرا دیتے اور فرماتے کہ مولانا نے اس مقام کی یہ تقریر کی ہے، اسی طرح اگر کوئی طالب کسی مقام کی مولانا کی تقریر کے معارض تقریر کرتا اور وہ صحیح ہوتی تو اپنی تقریر سے فوراً درس ہی میں رجوع فرما لیتے اور صاف لفظوں میں فرماتے کہ مجھ سے غلطی ہوئی اور صرف ایک بار ہی نہیں بلکہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد رہ رہ کر جوش اٹھتا اور باربار فرماتے ہاں! واقعی مجھ سے غلطی ہوئی، مولانا کو ایسی باتوں سے ذرا عار نہ آتی تھی، بات یہ ہے کہ جن کی بڑی شان ہوتی ہے وہ کہیں ایسی باتوں سے گھٹتی ہے، اگر کسی کی ایک من شان ہو اور ا س میں سے ایک تولہ گھٹ جائے تو اس کو اس کمی کی کیا پرواہ ہوگی؟ ہاں! جن کی ایک چھٹانگ ہی شان ہوگی ،اس میں سے ا گر آدھی چھٹانگ جاتی رہی تو اس کے پاس پھر آدھی چھٹانگ ہی رہ جائے گی۔ (الافاضات الیومیہ)