اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
ہمارے اسلاف اور علمی طلب و شوق ہمارے اسلاف کی زندگی میں علمی طلب اور ذوق و شوق غالب تھا، ہر وقت علم کی طلب اور دھن لگی رہتی تھی، اسی طلب اور دھن کا نتیجہ تھا کہ علم کے اعلیٰ معیار پرپہنچے تھے۔ امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں: ’’اِنَّمَا اَطْلُبُ الْعِلْمَ اِلٰی اَنْ اَدْخُلَ الْقَبْرَ‘‘ میں قبر میں داخل ہونے تک علم کی طلب وجستجو میںلگا رہوں گا۔ امام بخاریؒ سے کسی نے پوچھا آپ کے دل میں کوئی خواہش ہے؟ تو فرمایا، ہاں! خواہش یہ ہے کہ میرے استاذ علی بن مدینی حیات ہوتے اور میں ان کے پاس رہ کر علمی استفادہ کرتا۔ عبداللہ بن مبارکؒ کے بارے میں ابواسامہ فرماتے ہیں۔ َماَرئَیْتُ رَجُلًا اَطْلَبَ لِلْعِلْمِ فِی الْاَفَاقِ مِنْ اِبْنِ الْمُبَارَکِ میں نے عبداللہ ابن مبارک سے زیادہ کسی کو ملک در ملک گھوم کر علم کو طلب کرنے والا نہیں دیکھا۔ (آداب المتعلمین) حافظ ابو عبداللہ اصفہانی ایک روز اپنے مقامات رحلت کی تفصیل بیان کرنے لگے کہ میں حدیث حاصل کرنے گیا ہوں، طوس، ہرات، بلخ، بخاریٰ، سمرقند، کرمان، نیشاپور، جرجان غرض اسی طرح ایک سو بیس مقامات کے نام لے ڈالے، میں خیال کرتا ہوں کہ اگر ان کے نام مسلسل لئے جائیں تو سننے والے گھبرا جائیں گے ، آفریں ! اس باہمت جواں مردپر جو اتنے مقامات کا سفر کرتے کرتے نہیں گھبرایا، یہ ان کے علمی ذوق وشوق کی زندہ مثال ہے۔ ؎ (ظفر المحصلین) مکن زغصہ شکایت کہ در طریق طلب براحتے نہ رسید آنکہ زحمتے نہ کشید