اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
ہوں ،تاکہ نیند اڑ جائے کیونکہ کہا گیا ہے اَلْعِلْمُ لَایُعْطِیْکَ بَعْضَہٗ حَتّٰی تُعْطِیَہٗ کُلَّکَ علم کے جب تک تم پورے حوالے نہیں ہوجائوگے، علم تمہیں اپنا بعض بھی نہیں دے گا۔(مبادیات فقہ) حضرت گنگوہی ؒ کے حالات میں لکھاہے کہ آپ اس قدر محنتی تھے کہ شب وروز کے چوبیس گھنٹوں میںشاید سات آٹھ گھنٹے بمشکل سونے ، کھانے اور دیگر ضروریات میں خرچ ہوتے تھے ،اس کے علاوہ سارا وقت ایسی حالت میں گذرتا تھا کہ کتاب نظرکے سامنے ہے اور خیال مضمون کی تہ میں ڈوباجاتا ہے، مطالعہ میں آپ اس درجہ محو ہوتے تھے کہ پاس رکھا ہوا کھانا کوئی اٹھا کر لے جاتاتوخبر نہ ہوتی، بارہا ایسا اتفاق ہوا کہ کتاب دیکھتے دیکھتے آپ سوگئے اور صبح کو معلوم ہوا کہ رات کھانا نہیں کھایا تھا۔ (آب بیتی) حضرت مولانا مناظراحسن گیلانی حضرت شاہ عبدالحق صاحب کے متعلق ’’نظام تعلیم وتربیت‘‘ میں لکھتے ہیں کہ جب مطالعہ کرتے کرتے آدھی رات سے زیادہ گذرجاتی تووالد صاحب ازراہ شفقت فرماتے بابا! کیاکررہے ہو؟ میںجلدی سے لیٹ کر کہتا کہ سویا ہوا ہوں، کیا ارشاد ہے؟ اس کے تھوڑی دیر بعد اٹھ جاتا اور پھر مطالعہ میں لگ جاتا، شیخ نے یہ بھی فرمایا کہ چراغ بعض مرتبہ میری دستار اوربال میں لگ جاتا اور مجھے پتہ بھی نہیں چلتا۔شب بیداری اور ذوق مطالعہ ابن الانباری کہتے ہیں کہ ابوعبیدہ رات کو تین حصوں میں تقسیم کردیتے تھے ایک ثلث تو اللہ کی عبادت اور اس کے ساتھ رازونیازمیں گذارتے تھے ، ایک ثلث صحت وتندرستی کی خاطر آرام فرماتے اور تیسرا ثلث مطالعہ ٔ کتب اور علمی انہماک میں صرف ہوتا تھا۔ محمدبن سلمہ کا بیان ہے کہ امام محمدؒ نے رات کے تین حصے کردئے تھے، ایک