اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
ذریعہ مجھے ایک علم حاصل ہوا ہے ۔ (خطبات حکیم الاسلام)حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒاور حسن ادب حضرت تھانوی ؒ سے حضرت شیخ الہند کے ترجمۂ قرآن پاک پرتقریظ لکھنے کی درخواست کی گئی تو اس پر حضرت نے فرمایا ، تقریظ لکھنا تواس کاحق ہے جو ایک طرف مدح پر قادر ہو تو دوسری طرف قدح بھی کرسکتا ہو اور ہم تو حضرت کے شاگرد ہیں، ہم تو ان کی ہر چیز کی مدح ہی کریں گے ، اگرہم تقریظ لکھیں اور مدح کریں تو گویا اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم قدح بھی کرسکتے ہیں اور اس کا بھی حق رکھتے ہیں اور اس کا قبیح وشنیع ہوناظاہر ہے ، چونکہ حضرت استاذکی قدح گوشۂ تصور میں لانا بھی سوء ادبی ، بے ادبی اورخلاف ادب ہے۔ (افادات مسیح الامت)دسواں ادب طالب علم ۔ اور استاذ کی خدمت اورانکے ساتھ لگاؤ علم کی حقیقی دولت حاصل کرنے کیلئے طالب علم پر اپنے استاذ کی خدمت اور ان کے ساتھ لگاؤ بہت ضروری ہے،اسی سے طالب علم دینی اور دنیوی ترقی کرتاہے۔ حضرت اقدس تھانوی قدس سرہٗ فرماتے ہیں کہ ’’میں بقسم کہتا ہوں کہ کتابوں سے دین نہیں آتا، ضابطہ کا دین تو کتابوں سے آسکتا ہے، مگر حقیقی دین بلاکسی کی جوتیاں سیدھی کئے بلکہ جوتیاں کھائے نہیں آتا ، دین کسی کی خوشامدنہیں کرتا، دین ان ہی نخروں سے آتا ہے، جس کا جی چاہے لے جس کا جی چاہے نہ لے، اکبر ایک اچھے شاعر تھے، ان کا کلام حکیمانہ ہوتا تھا، ان کا مصرعہ ہے۔ ؎ دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا کتاب ادب الدنیا والدین میں لکھا ہے کہ طالب علم کے لئے استاذ کی خوشامد او اس کے سامنے تذلل (ذلیل بننا) ضروری ہے ، اگر ان دونوں چیزوں کو