اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
لاپرواہی اور غفلت کا یہ حال ہے حضرت تھانوی ؒ کے مواعظ میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک جگہ لکھنئو میں صدرا (کتاب کا نام) کا سبق ہورہا تھا، کسی مقام پر نسخہ کی غلطی کا احتمال ہوا، طلبہ کے نسخے دیکھے گئے، ایک طالب علم ایسے تھے کہ ان سے پوچھا تمہاری کتاب میں کیا ہے؟ تو وہ ڈھونڈنے لگے‘‘ استاذ جو برہم ہوئے تو کہنے لگے کہ ابھی نظر سے نکل گیا ہے، بتلاتا ہوں، جب زیادہ دیر ہوئی تو استاذ نے کتاب ان سے لیکر خود دیکھنا چاہا تو معلوم ہوا کہ کتاب ’شمس بازغہ‘‘ کھول کر بیٹھے ہوئے ہیں، پوچھا کہ تم روزانہ اس نسخہ میں پڑھتے ہو؟ کہنے لگے جی ہاں! سو ان بزرگ کو اب تک یہ خبر نہ تھی کہ یہ کونسی کتاب ہے؟ کچھ حد ہے اس لاپرواہی کی۔ اس قسم کا دوسرا واقعہ گجرات کے کسی مدرسہ کا ہمارے ایک رفیق محترم سنایا کرتے ہیں کہ ایک جگہ روزانہ ترمذی کا سبق ہوتا تھا اور ہفتہ میں ایک روز جمعرات کو بجائے ترمذی کے طحاوی کا درس ہوتا تھا، ایک طالب علم ان میں ایسے تھے کہ انہیں یہ پتہ نہ تھا، تو وہ اپنے ساتھیوں سے کہتے تھے کہ مجھے جمعرات کو استاذ محترم کا سبق کتاب میں ملتا ہی نہیں، کیا بات ہے؟ روزانہ استاذ کی تقریر کو کتاب سے منطبق کرلیتا ہوں، مگر جمعرات کو عبارت ملتی ہی نہیں، کسی ساتھی نے دیکھا تو حضرت طحاوی کی جگہ ترمذی کھول کر بیٹھے ہیں۔چھٹا ادب طالب علم اور تکرارو علمی مذاکرہ استاذ کی تقریر توجہ اور دھیان سے سننے کے بعد سبق کا تکرار و مذاکرہ بہت ضروری ہے کیونکہ تکرارو مذاکرہ سے علم میں پختگی آتی ہے، استعداد بنتی ہے ، زبان کھلتی ہے، سنی ہوئی باتیں اچھی طرح محفوظ ہوجاتی ہے، بغیر تکرار کے علوم قلب میں