اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
دعا کی حقیقت آیت بالا کی تفسیر میں حضرت نعمان بن بشیر نے یہ حدیث بیان فرمائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اِنَّ الدُّعَائَ ھُوَالْعِبَادَۃُ‘‘ یعنی دعا عبادت ہی ہے۔ تفسیر مظہری میں ہے کہ جملہ’اِنَّ الدُّعَائَ ھُوَالْعِبَادَۃُ‘ میں بقاعدۂ عربیت (قصر المسند علی المسندالیہ) یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ دعا عبادت ہی کا نام ہے یعنی ہر دعا عبادت ہی ہے، اور (قصر المسندالیہ علی المسند کے طور پر) یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ ہر عبادت ہی دعا ہے، یہاں دونوں احتمال ہیں اور مراد یہاں یہ ہے کہ دعا اور عبادت اگرچہ لفظی مفہوم کے اعتبار سے دونوں جدا جدا ہیں مگر مصداق کے اعتبار سے دونوں متحد ہیں کہ ہر دعا عبادت ہے اور ہر عبادت دعا ہے۔ (معارف القرآن نمبرج۷/۴۷۰) دعا کی حقیقت یہ ہے کہ جس چیز کے لئے دعا کرنا ہو اس چیز کی طلب اور حاجت مندی کا دل میں شدت سے احساس ہو، جس طرح پیاسے کو پانی کی طلب ہوتی ہے پھر اللہ کے کرم اور فضل پر اعتماد کرکے پورے دھیان اور توجہ کے ساتھ اس کامل یقین سے مانگے کہ وہ چیز بس اس کے خزانے میں اور اس کی قدرت میں ہے اور وہ اپنے کرم سے مجھ محتاج اور بھکاری کو ضرور عطا فرمائے گا۔ دعا اگر دل کی حضوری کے ساتھ نہ ہو، صرف زبان بول رہی ہو اور ہاتھ اٹھے ہوئے ہوں، دل کہیں اور ہو تو یہ دعا نہیں، دعا تو دل کا عمل ہے ، زبان سے صرف اس کا ظہور ہوتا ہے، بالفاظ دیگر یوں کہئے کہ ہاتھوں کا اٹھنا، اور زبان سے دعا کے الفاظ کا نکلنا دعا کی صورت اور اس کی ظاہری شکل ہے، اس کی حقیقت توجہ کے ساتھ دل کی طلب اور دل کا اللہ سے مانگنا ہے۔