اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
تزکیہ و تصفیہ کے بھی ذمہ دار تھے، ان تینوں طبقوں میں استاذ و شیخ کی تفریق نظر نہیں آتی۔ (مقدمہ دینی دعوت)تعلیم وتزکیہ میں تفریق اس کے بعد وہ دور آنا شروع ہوا جس میں مسند ظاہر کے درس گو باطن کے کورے اور باطن کے روشن دل ظاہر سے عاری ہونے لگے ،عہد بہ عہد ظاہر و باطن کی یہ خلیج بڑھتی ہی چلی گئی ،تا آنکہ علوم ظاہر کے لئے مدارس کی چہار دیواری اور تعلیم و تزکیۂ باطن کے لئے خانقاہوں اور رباطوںکی تعمیر عمل میں آئی اور وہ مسجد نبوی جس میں یہ دونوں جلوے یکجا تھے، اس کی تجلیات مدرسوں اور خانقاہوں کے دو حصوں میں تقسیم ہوگئیں، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مدارس سے علماء دین کی جگہ علماء دنیا نکلنے لگے اور باطن کے مدعی شریعت کے اسرار و کمالات سے جاہل ہوکر رہ گئے۔ (حوالۂ بالا)تعلیم و تزکیہ کی یکجائی فلاح کی ضامن ہے تاہم اس دور کے بعد بھی ایسی مستشنی ہستیاں پیدا ہوتی رہیں ،جس میں نور نبوت کے یہ دونوں رنگ بھرے تھے اور غور سے دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ اسلام میں جن بزرگوں سے فیض پہنچے اور پھیلے وہ وہی تھے جو ان دونوں کے جامع تھے، امام غزالیؒ جن سے علم معقول ومنقول نے جلوہ پایا، علم حقیقت نے بھی انہی کے ذریعہ ظہور پایا۔ حضرت شیخ ابوالنجیب سہروردی ایک طرف شیخ طریقت ہیں تو دوسری طرف مدرسہ نظامیہ کے مدرس ہیں، حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی امام وقت اور شیخ طریقت دونوں ہیں، یہاں تک کہ وہ لوگ جن کو علماء ظاہر سمجھا جاتا ہے جیسے حضرات محدثین، امام بخاری، امام احمد بن حنبل، سفیان ثوری وغیرہ وہ بھی اس جامعیت سے سرفراز تھے، متوسطین میں علامہ ابن تیمیہ اور حافظ ابن قیم رحمہما اللہ کو