اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
دوسرا ادب طالب علم اور تقویٰ و طہارت حقیقی علم کی دولت حاصل کرنے کے لئے تقویٰ شرط اولین ہے، اس کے بغیر علم کے الفاظ اور معلومات میں اضافہ تو ہوسکتا ہے، مگر علم کی حقیقت حاصل نہیں ہوسکتی۔ حضرت اقدس تھانویؒ فرماتے ہیں کہ یاد رکھو! علم کی حقیقت کہ احکام کو صحیح صحیح سمجھ جائیں، میں بقسم کہتا ہوں کہ وہ بدون تقویٰ کے نصیب نہیں ہوتا، اگر دو آدمی ہم عمر ہوں اور ایک ہی استاذ سے انہوں نے پڑھا ہو، فہم و حافظے میں بھی برابر ہو لیکن فرق یہ ہو کہ ایک متقی ہو اور ایک نہ ہو تو متقی کے علم میں جو برکت اور نور ہوگا اور جیسا فہم اس کا صحیح ہوگا اور جیسے حقائق حقہ اس کے ذہن میں آئیں گے ،وہ بات غیر متقی میں ہرگز نہ ہوگی، اگرچہ اصطلاحی عالم ہے اور کتابیں بھی پڑھا سکتا ہے مگر خالی اس سے کیا ہوتا ہے، اگر تقویٰ ہوگا تو علوم حقہ قلب پروارد ہوں گے، اب بھی جس طالب علم کا دل چاہے تجربہ کرلے اور تقویٰ اختیار کرکے دیکھ لے کہ کیسے کیسے علوم حاصل ہوتے ہیں،اگر خلوص سے تقویٰ اختیار کیا جائے تو اس کی برکت کی تو حد نہیں، اگر خلوص نہ ہو تو امتحان کے لئے کرکے دیکھ لو، ا سکی برکت بھی کچھ نہ کچھ دیکھ لوگے۔ لہٰذا طلبہ کو اہتمام کے ساتھ تقویٰ اختیار کرنا چاہئے اور تقویٰ پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے۔تقویٰ کی حقیقت تقویٰ کا استعمال شریعت میں دو معنی میں ہوتا ہے ایک ڈرنا، دوسرے بچنا