اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
بات یہ ہے کہ اگر کرامت دیکھنے کی ہے تو یہ ہے کہ اس کی ذات سے ، اس کے فیض صحبت سے کتنے مردہ دل زندہ ہوتے ہیں، یہ کرامت مردوں کو زندہ کرنے سے زیادہ لائق قدر ہے اور اس کے کامل ہونے کی دلیل ہے۔ (سیرت مولانا محمد علی مونگری) حضرت شیخ محی الدین ابن عربی فرماتے ہیں کہ داہنے پائوں سے مسجد میں داخل ہونا یہ سنت ہے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی، پس اگر کوئی سو مرتبہ ہوا پر اڑتا ہو تو وہ اس شخص کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں جس نے ایک سنت پر عمل کیا، کیونکہ سنت پر عمل کرنے سے اللہ تعالیٰ کا قرب بڑھ جاتا ہے اور اللہ سے محبت میں ترقی ہوتی ہے اور آدمی اللہ کا دوست بن جاتا ہے اور ہوا میں اڑنے سے قرب الی اللہ میں کچھ بھی اضافہ نہیں ہوتا، چڑیا بھی ہوا میں اڑتی ہے۔وصول الی اللہ کا راستہ اور ایک نسخہ کیمیا حضرت جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں چلنے کے لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ ایک ہاتھ میں اللہ کی کتاب ہو اور دوسرے ہاتھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہو، ان دونوں کی روشنی میں بندہ اللہ تک پہنچ سکتا ہے۔ بایزید بسطامیؒ فرماتے ہیں ’’ اَلطُّرُقُ اِلَی اللّٰہِ بِعَدَدِاَنْفَاسِ الْخَلَائِقِ‘‘ یعنی اللہ تک پہنچنے کے اتنے راستے ہیں جتنی کہ مخلوق کی سانسیں ہیں، مگر اللہ تک پہنچنے کے سارے دروازے بند کردئے گئے ہیں ،صرف ایک دروازہ کھلا ہے اور وہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع کا دروازہ ہے، یعنی جو آپ کے نقش قدم پر چلے گا وہی خدا تک پہنچے گا۔ حضرت مولانا شاہ فضل الرحمن صاحب نوراللہ مرقدہٗ فرماتے ہیں، آئیے ہم آپ کو ایک نسخۂ کیمیا بتائیں، وہ یہ ہے کہ ہم جو بھی کام کریں، اس میں سنت کا لحاظ