اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
یَاجَاعِلَ الْعِلْمِ لَہٗ بَازِیًا یَصْطَا دُاَمْوَالَ الْمَسَاکِیْنِ (علم کو باز بنا کر غریبوں کا مال شکار کرنے والے، اَحْتَلْتَ للِدُّنْیَا وَلَذَّاتِھَا بِحِیْلَۃٍ تُذْہِبُ بِالدِّیْنِ دنیا اور اس کی لذتوں کے لئے تونے ایسا حیلہ تراشا ہے جو دین کو بھی لے ڈوبے گا، فَصِرْتَ مَجْنُوْنًا بِھَا بَعْدَ مَا کُنْتَ دَوَائً لِلْمَجَانِیْنِ عشق دنیا میں مجنون ہوگیا ہے ، حالانکہ تو خود مجنونوں کی دوا تھا۔ اَیْنَ دَرْسُکَ الْعِلْمَ بِاٰثَارِہِ وَتَرْکُکَ اَبْوَابَ السَّلَاطِیْنِ وہ تیری علمی سرگرمی اور شاہی ڈیوڑھیوں سے بیزاری کیا ہوئی؟ تَقُوْلُ اُکْرِہْتَ فَمَاذَاکَذَا زَلَّ حِمَارُالْعِلْمِ فِی الطِّیْنِ کہتا ہے مجبور کردیا گیا ہوں، غلط ،یوں کہہ کہ علم کا گدھا کیچڑ میں پھسل پڑا ہے۔ لَاتَبْتَغِ الدُّنْیَا بِدِیْنٍ کَمَا یَفْعَلُ ضَلَالُ الرَّھْبَا نِیِّیْنَ دیکھ گمراہ احبار و رہبان کی طرح دین کی راہ سے دنیا طلب نہ کر۔ (حوالہ بالا)اسلاف کی حق گوئی و بے باکی خلیفہ معتضد باللہ نے ۴۸۲۔ھ میں ارادہ کیا کہ امیر معاویہ پر برسر منبر لعنت کی جائے ، خلیفہ کے وزیر خاص عبداللہ نے منع کیاکہ سوتے فتنے کو جگانا اچھا نہیں ، لوگوں میں شورش ہوگئی تو سنبھالا مشکل ہوجائے گا، مگر خلیفہ نے نہ مانا اور احکام جاری کردئیے ۔ قاضی یوسف نے جب سنا تو دوڑے ہوئے آئے اور ہر چند کہ جانتے تھے کہ جب خلیفہ نے اپنے وزیر کی نہیں مانی تو میری کیا سنے گا، لیکن اس حکم کا نتیجہ چونکہ وہ ملک اور مالک دونوں کے لئے برا سمجھتے تھے، اس لئے خلیفہ سے بے باک کہہ دیا کہ آپ وہ غلطی کررہے ہیں جس کی اصلاح بعد میں نہ ہوسکے گی، چاروں