اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
قیام گاہ مدرسہ سے دور تھی، ایک مرتبہ سخت بارش ہورہی تھی، قریب کے طلبہ مدرسہ پہنچ گئے، قاری صاحب کے انتظار میں حضرت شاہ صاحب بیٹھے ہوئے تھے۔ طلبہ نے کہا آج بارش بہت زیادہ ہے قاری صاحب نہ آسکیں گے۔حضرت شاہ صاحب خاموش رہے ،اتنے میں قاری صاحب گھڑے کے اندر کتاب لئے بھیگتے ہوئے پہنچ گئے، سردی کی وجہ سے کانپ رہے تھے، حضرت شاہ صاحب مسرور ہوئے، طلبہ سے مخاطب ہوکر فرمایا میں سمجھ رہا تھا کہ قاری صاحب سبق کا ناغہ نہ کریں گے، اس کے بعد فرمایا کہ تم قاری صاحب کو نہیں سمجھتے ! الفاظ حدیث کے میں ان کو پڑھاتا ہوں اور حدیث کی روح خود ان سے حاصل کرتا ہوں۔ (آداب المتعلمین)پانچواں ادب طالب علم۔ اور استاذ کی تقریر توجہ اور دلجمعی سے سننا تحصیل علم کے ظاہری آداب میں ایک ادب یہ ہے کہ طالب علم استاذ کی تقریر توجہ اور دلجمعی سے سنے، دوران تقریر نہ ادھر ادھر دیکھے، نہ کسی سے باتیں کرے، بلکہ ہمہ تن متوجہ رہے، ایسا ہرگز نہ ہوکہ صرف جسم یہاں موجود ہو اور ذہن کہیں اور خیالات کی دنیا میں گھوم رہا ہو، اس طرح کرنے سے علم کی ناقدری ہوتی ہے۔ بلکہ نہایت ہی وقار اور خوب طلب و رغبت کے ساتھ درس میں بیٹھے ، جتنی دلجمعی، طلب اور رغبت ہوگی اتنا ہی فیض پہنچے گا عادۃ اللہ یونہی جاری ہے۔ حضرت سفیان ثوریؒ کا مقولہ ہے ’’اَوَّلُ الْعِلْمِ الْاَسْتِمَاعُ ، ثُمَّ الْاِنْصَاتُ ثُمَّ الْحِفْظُ ثُمَّ الْعَمَلُ ثُمَّ النَّشْرُ‘‘ علم کی ترتیب اس طرح ہے، اول استاذ سے غور سے سننا، پھر خاموش رہ کر اس کا صحیح مطلب سمجھنا، پھر اس کو یاد کرنا، پھر اس پر