اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
یادتازہ کردی۔‘‘ پھر کیا وجہ ہے؟ کہ اب ان علوم کو پڑھ کر وہ صلاحیت وقابلیت پیدا نہیں ہوتی اور ان درسگاہوں سے طلبہ بالکل تہی دست نکل رہے ہیں، آخر ہمارے اس نظام تعلیم سے اور شب وروز کی تگ ودو سے او ر جدوجہد سے خاطر خواہ نتائج کیوں مرتب نہیں ہوتے؟ دراصل بات یہ ہے کہ کسی بھی کام میں حقیقت وکمال پیدا کرنے کیلئے دوچیزیں ناگزیر ہیں۔ ایک تحقق شرائط ، دوم ارتفاع موانع، یعنی اس کام کوکرنے میں اس کی جملہ شرائط کو بروئے کارلانا اور اس میں رکاوٹ ڈالنے والی تمام چیزوں سے بالکلیہ احتراز ، جب تک یہ دو چیزیں حاصل نہیں ہوتی وہاں تک اس کام میں حقیقت وکمال پیدا نہیں ہوتا۔ چنانچہ ہمارے اسلاف جو کامل اور قابل بنے اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ اس کے مطابق طالب علمی کی زندگی گذارتے تھے۔ ………………اور آج ہمارے طلبہ نے ان دونوں چیزوں کو بالائے طاق رکھ دیا، اسلاف کے نقش قدم سے ہٹ گئے، لاپرواہی اور لاابالی کے ساتھ تعلیمی کورس پورا کردیتے ہیں ، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سند فراغت حاصل ہوجاتی ہے اور حقیقت سے کوسوں دور رہتے ہیں۔ اگر آج بھی حقیقت پیدا کرنی ہے تو بیدار مغز ی کے ساتھ پیچھے مڑکر اپنے اسلاف کی زندگی کا آئینہ دیکھنا ہوگا اور ان کی طالب علمی کی زندگی سے وہ علمی شرائط وموانع کو سمجھ کر اس پر عمل پیراہونا پڑے گا ۔ اگر اس طریقہ پر ہمارے طلبہ نے اپنی طالب علمی کی زندگی گذارنا شروع کیا تو آج بھی وہ حقیقی علم کی دولت لایزال سے بہرہ ور ہوسکتے ہیں اور آج بھی وہ زرین کارنامے انجام دے سکتے ہیں، جن پر تاریخ فخر کررہی ہے۔