اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
حضرت مولانا عبدالحئی صاحب لکھنوی اپنی خودنوشت سوانح میں تحریر فرماتے ہیں۔ وَکُلَّمَا فَرَغْتُ مِنْ تَحْصِیْلِ کِتَابٍ شَرَعْتُ فِی تَدْرِیْسِہٖ فَحَصَلَ لِیَ الْاِسْتِعْدَادُ فِی جِمِیْع الْعُلُوْمِ بِعَوْنِ اللّٰہِ الْحَیِّ الْقَیُّوْمِ وَلَمْ یَبْقَ تَعَسُّرٌفِی اَیِّ جس کتاب کے پڑھنے سے فارغ ہوتا اس کو پڑھانا شروع کردیتا تمام علوم میں میری صلاحیت پختہ ہوتی گئی اللہ حی قیوم کی اعانت سے ، مجھے کسی اورکتاب کے کِتَابٍ کَانَ مِنْ اَیِّ فَنٍ کَانَ حَتّٰی اَنِّی دَرَّسْتُ مَالَمْ اَقْرَأہٗ عَلٰی حَضْرَۃِ الْاُسْتَاذِ کَشَرْحِ الْاِشَارَاتِ لِلطُّوْسِیْ وَالْاُفْقِ الْمُبِیْنِ وَقَانُوْنِ الطِّبِّ وَرَسَائِلَ الْعُرُوْضِ۔ سمجھانے میں کوئی دشواری محسوس نہیںہوتی تھی، خواہ کوئی سی کتاب ہو اور کسی بھی فن کی ہو، حتی کہ اس مشق کی بنیاد پر ایسی کتابیں بھی میں نے پڑھادی جنہیں استاذ سے نہیں پڑھا تھا، مثلاً طوسی کی شرح اشارات افق مبین ، طب میں قانون شیخ ، اور عروض کے رسالے۔ (نفع المفتی والسائل)تعلیم وتعلّم اور اس کے ظاہری آداب علم کی حقیقی دولت جس پر قرآن وحدیث میں بے شمار فضائل وارد ہوئے ہیں ،اس کو حاصل کرنے کے لئے ان اوصاف وآداب کا ہونا ناگزیر ہے جن کے ساتھ متصف ہوکر ہمارے اسلاف اپنی طالب علمی کی زندگی گذارتے تھے اور علوم نبوت کے بیش بہا خزانوںسے فیضیاب ہوتے تھے۔ وہ اوصاف وآداب دوطرح کے ہیں۔ کچھ ظاہری ہیں، کچھ باطنی ہیں، آئندہ سطروں میں ان کوقدرے تفصیل کے ساتھ بیان کیا جارہا ہے تاکہ ہمارے