اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
امام مالک کے حلقۂ درس میں نہایت سکون ووقار رہتاتھا ، طلبہ مؤدب اورخاموش بیٹھتے تھے ، ادب وعظمت کی وجہ سے پوری مجلس پر ایک مقدس سکوت طاری رہتاتھا ، جاہ وجلال اور شان وشکوہ سے کاشانۂ امامت پر بارگاہ شاہی کادھوکہ ہوتاتھا۔ امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ کتاب کے ورق بھی اس ڈرسے نہیں الٹتے تھے کہ کھڑکھڑاہٹ کی آواز نہ ہو۔ (تذکرۃ المحدیثین) امام ربیع فرماتے ہیں کہ اپنے استاذ امام شافعی کے سامنے مجھ کو کبھی پانی پینے کی جرأت نہیںہوئی۔ حضرت ابوعبیدہ ؒ فرماتے ہیںکہ میں نے کبھی کسی عالم کے دروازے پر جاکر دستک نہیں دی بلکہ اس کا انتظار کیا کہ جب وہ خود ہی تشریف لاویں گے ، اس وقت ملاقات کرلوںگا۔ حضرت گنگوہی نوراللہ مرقدہٗ کو اپنے جملہ اساتذہ کے ساتھ ایک خاص انس وتأدب ملحوظ تھا، اکثر اپنے اساتذہ کے مناقب ومحاسن بیان فرمایا کرتے اور آنکھوں میں آنسو بھربھر لایا کرتے تھے۔ (تذکرۃالرشید)مامون رشید اور استاذ کی عظمت واحترام ابومحمدیزیدی مامون الرشید کے استاذ تھے ، یزیدی خود بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اسے پڑھانے گیا، شہزادہ حرم خانہ میں تھا ، میںنے اسے بلوابھیجا ، وہ نہ آیا ، پھر دوسرا آدمی بھیجا ۔ تب بھی نہ آیا ، میں نے کہا معلوم ہوتا ہے کہ شہزادے کو علم سے رغبت نہیں اور لہوولعب میںوقت ضائع کرتا رہتا ہے۔ یزیدیؒ کہتے ہیں کہ جب مامون محل سے باہر نکلا تو میں نے اس کی پیٹائی کی وہ روتا جاتا تھا اوراپنے آنسو پونچھتا جاتا تھا ، اتنے میں جعفر بن یحییٰ برمکی (وزیر) بھی آگیا،میں اٹھ کر باہر چلایا آیا اور ڈرتا رہا کہ مامون کہیں جعفر سے میری شکایت نہ کردے ، جب جعفر چلاگیا، تومیں پھر اسکے پاس گیا ، او ر اس سے کہا میں