اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
تمام عمر اسی احتیاط میں گذری کہ آشیانہ کسی شاخ گل پہ بار نہ ہوحضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کا تقویٰ و احتیاط حضرت گنگوہی کے متعلق تذکرۃ الرشید میں لکھا ہے کہ اپنے معاملہ میں آپ کا تقوی و احتیاط اس قدر تھا کہ مسئلہ مختلف فیہا میں قول راحج پر اقرب الی الاحتیاط کو اختیار فرمایا کرتے تھے باوجود ضرورت کے احتیاط کو بالکل نہیں چھوڑتے تھے، آپ کے احتیاط کی ادنیٰ مثال یہ ہے کہ آپ نے اپنے امراض میں کیسا ہی شدید مرض کیوں نہ ہو کبھی بیٹھ کر نماز نہیں پڑھی۔ مرض الموت میں جب تک اس قدر حالت رہی کہ دو آدمیوں کے سہارے سے کھڑے ہوکر نماز پڑھ سکے اس وقت تک اسی طرح پڑھی کہ دو تین آدمیوں نے بمشکل اٹھایا اور دونوں جانبوں سے کمر میں ہاتھ ڈال کر لے کر کھڑے ہوگئے اور قیام و رکوع و سجود غرض پوری نماز انہیں کے سہارے سے اد اکی، ہر چند خدام نے عرض کیا کہ حضرت بیٹھ کر نماز ادا کیجئے، مگر نہ کچھ جواب دیا نہ قبول فرمایا: ایک روز مولانا یحییٰ صاحب نے عرض کیا کہ حضرت اگر اس وقت بھی جائز نہیں تو پھر کونسا وقت اور کونسی حالت ہوگی جس میں بیٹھ کر نماز پڑھنا شرعاً جائز ہے، آپ نے فرمایا قادر بقدرۃ الغیر توقادر ہوتا ہے اور جب میرے دوست ایسے ہیں کہ مجھ کو اٹھا کر نماز پڑھاتے ہیں تو میں کیونکر بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہوں؟ آخر نوبت ضعف اس قدر پہنچ گئی کہ دوسروں کے سہارے بھی کھڑے ہونے کی قدرت نہ رہی، تو اس وقت چند وقت کی نمازیں آپ نے بیٹھ کر پڑھیں، گویا بتلا دیا کہ اتباع شرع اس کو کہتے ہیں ،تقویٰ اس کا نام ہے، اختیار احوط اس طرح ہوتا ہے۔حضرت مولانا عنایت علی صاحب کا تقویٰ و احتیاط حضرت مولانا عنایت علی صاحب مدرسہ مظاہرالعلوم سہارنپور کے مہتمم تھے