اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
آدمیوں نے سنا، (تاریخ دعوت و عزیمت) اس دور میں طلب علم اور اس کے واسطے سفر و مشقت کا اندازہ اس سے کر لیجئے کہ ایک ایک شخص کے استاذوں کی تعداد تین، تین، چارچار اور پانچ پانچ ہزار تک پہنچ جاتی تھی، طلب علم کا یہ طرز و طریق اور یہ صورت حال تقریباً چوتھی صدی کے وسط تک رہی۔(دعوت علم و عمل)قرون اولیٰ میں علم کی ترقی و وسعت قرآن مجید کی سب سے پہلے نازل ہونے والی سورت کا پہلا لفظ’’ ’’اقرأ‘‘آیا کہ پڑھو اور اس کے بعد متصلاً آیت میں خدا تعالیٰ نے انسان کو علم عطا کرنے کو اپنی نعمت کے طور پر ظاہر کیا اور اس میں قلم کا خصوصیت سے ذکر کیا اور اس کو علم کے فروغ کا ذریعہ قرار دیا ،پھر اس کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے علم کی طرف توجہ دی اور اس کے حصول کے لئے انتظام کی فکر کی، جس کے نتیجہ میں علم اس امت کی دلچسپی کا خاص موضوع بنا۔ چنانچہ اس امت کے آغاز کے بعد صرف دو تین صدیوں کے اندر یہ امت علم کے اس مقام پر پہنچ گئی کہ جس میں پوری دنیا میں اس کا کوئی ثانی نہیں رہا اور علم میں یہ امت کمال کے مقام پر پہنچ کر ساری دنیا کی معلم اور استاذ بنی اور اس نے اپنی اس برتری کو چھ صدی تک برقرار رکھا۔ چنانچہ ساتویں صدی عیسوی سے تیرہویں صدی عیسوی تک سب سے زیادہ علم رکھنے والی اور علم کو فروغ دینے والی امت یہی امت رہی اور مسلمانوں کے لئے صرف مذہبی دائرے میں نہیں بلکہ لٹریچر میں، سائنس میں اور تجرباتی علوم میں بھی ممتاز اور نمایاں رہے، طب، ہیئت اور ریاضی سے لیکر جغرافیہ اور جہاز رانی تک نظم و