اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
شاگرد پر استاذ کی بات کا ماننا لازم ہے استاذ جب کسی موقع پر شاگرد کی حالت کو دیکھ کر کوئی حکم کرے، تو بلاچوں چرا اسکو تسلیم کرناضروری ہے، بلکہ استاذ کے امر کو اپنے لئے باعث فخر سمجھے، استاذ کے سامنے اپنی کوئی رائے اور اختیار نہ رکھے ، اپنے آپ کو بالکلیہ استاذ کے حوالہ کردے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک امیر لشکر کو حکم نامہ لکھ کردیا اور کسی مصلحت سے یہ فرمایا ،جب تک فلاں مقام پرنہ پہنچ جاؤ ، اس کو مت پڑھنا ، چنانچہ انہوں نے اسی کے موافق عمل کیا، (بخاری) اس حدیث سے ایک ادب ثابت ہوا جو طالب علموںپر لازم ہے، وہ یہ کہ استاذ اگر کسی کتاب کے پڑھنے سے کسی خاص وقت منع کرے، مثلاً اس کے نزدیک شاگرد کی استعداد سے زیادہ ہے، اس مصلحت سے اس وقت پڑھنے سے منع کرتا ہے تو طالب علم کو چاہئے کہ اس پر عمل کرے، جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہرطرح مبار ک ہی تھا اور اس کا پڑھنا اور جاننا ہر وقت عبادت تھا،مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مصلحت سے ایک وقت معین تک اس کے مطالعہ سے منع فرمایا اور ان صحابی نے ویسا ہی کیا۔ (اصلاح انقلاب امت)ہرکتاب کا مطالعہ نہیں کرنا چاہیئے آج کل لوگ کثرت سے یہ غلطی کرتے ہیں کہ جو کتاب دین کے نام سے دیکھی یاسنی خواہ اس کا مصنف ہندو ہو یا عیسائی یا دہر یہ ہو یا مسلمان ، پھر مسلمان بھی گو صاحب بدعت ہو، غرض کچھ تفتیش نہیں کرتے اور اس کا مطالعہ شروع کردیتے ہیں ، اس میں وہ مضامین بھی آگئے جو کسی مسئلہ سے متعلق اخبارات ورسائل میں چھپے رہتے ہیں، اس میں چند مضرتیں ہیں۔ بعض اوقات کم علمی کی وجہ سے یہ ہی امتیاز نہیں ہوتا کہ ان میں کون