اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
، دوستوں میں زینت ہے، علم کے ذریعہ خدا بعضوں کواٹھاتاہے اور نیکی کا ایسا امام وپیشوا بنادیتا ہے کہ ان کے نقش قدم پر چلاجاتا ہے اوران کے قول پر عمل کیاجاتا ہے ، ملائکہ ان کی خدمت پر راغب ہوتے ہیں ، اپنے پروںسے انہیں چھوتے ہیں، ان کی مغفرت کے لئے ہرخشک وترچیز حتی کہ پانی کی مچھلیاں ، زمین کے کیڑے مکوڑے ، خشکی کے درند وچرند دعاکرتے ہیں ، کیونکہ علم دلوں کے لئے زندگی ہے، جہالت کی موت ہے ، آنکھوں کے لئے روشنی ہے تاریکی میں، علم ہی کے ذریعہ بندہ دنیاوآخرت میں اخیار کے مرتبے اوربلند درجے حاصل کرسکتاہے، علم میں غوروفکر روزے کے برابراور اس کی مشغولیت قیام کے ہم پلہ ہے، علم ہی سے رشتے جڑتے ہیں اور اسی سے حلال وحرام کی شناخت ہوتی ہے، علم عمل کا رہنما ہے، اورعمل اس کا پیرو ہے ، خوش نصیبوں کو ہی علم کی توفیق میسر آتی ہے اوربدبخت اس سے محروم رہتے ہیں۔ (ترغیب ترہیب) حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ ’’تَدَارُسُ الْعِلْمِ سَاعَۃً مِّنَ الَّلَیْلِ خَیْرُٗمِنْ اَحْیَائِھَا‘‘یعنی تھوڑی دیر علم کا پڑھناپڑھاناشب بیداری کرنے سے بہتر ہے ۔ (مشکوٰۃ)طلباء اور اہل علم کی فضیلت قرآن کریم میںمتعدد مقامات پر علم کا تذکرہ کیاگیاہے اور مختلف انداز سے علم کی اہمیت وافضلیت پرروشنی ڈالی گئی ہے اور اس کے حاصل کرنے پر انسانوں کوراغب کیا گیا ہے۔ سورۂ رحمن میںارشاد باری ہے ۔ اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ خَلَقَ الْاِنْسَانَ عَلَّمَہٗ الْبَیَانَ (پ۲۷ آیت۱) رحمن نے قرآن سکھلایا ، آدمی کو پیدا کیا اس کو بولنا اوربات کرناسکھلایا۔