اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
تمہارے لئے جائز نہیں ہے۔عمل کا مدارنیت پر ہے حضرت امام بخاری ؒ نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں سب سے پہلے اسی روایت کو لا کر اس پر متنبہ کردیا کہ ہر عمل کے آغاز میں ہی نیت کو اور مقصد کو ٹٹول لینا اور درست کرلینا چاہے۔ وہ روایت ہے’’ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَاتِ وَاِنَّمَا لِکُلِّ امْرِئٍ مَانَوٰی‘‘یقینا اعمال کا دارومدار نیت پرہے اور بلا شبہ ہر آدمی کو وہی ملتا ہے جس کی وہ نیت کرے۔ ایک حدیث میں ارشاد نبوی ہے کہ بہت سے اعمال بظاہر شکل و صورت میں دنیوی امور سے مشابہ ہوتے ہیں، لیکن حسن نیت کی وجہ سے وہ اعمال عبادات بن کر قرب الٰہی کا ذریعہ بنتے ہیںاور بہت سے اعمال اپنی ظاہری شکل و صورت میں اعمال آخرت کے مشابہ ہوتے ہیں، لیکن فسادنیت کی وجہ سے بے سود اور رائیگاں ہوجاتے ہیں۔ مدارس عربیہ میں پڑھنے والے طلبہ عام طور پر بد نیتی سے زیادہ بے نیتی کے شکار ہوتے ہیں کہ طلب علم میں ان کی کوئی نیت ہی نہیں ہوتی، کوئی مقصد ہی سامنے نہیں، منزل کا کوئی تعین ہی نہیں کہ ہمیں کہاں تک پہنچنا ہے، ہم کیوں پڑھ رہے ہیں، ہم سب کچھ چھوڑ کر اوقات فارغ کرکے مدرسہ میں کیوں آئے ہیں، بس لاابالی پن میں چل رہے ہیں۔ اور جیسے بدنیتی مضر ہے ایسے ہی بے نیتی بھی خسران و حرماں کا باعث بنتی ہے، لہٰذا طلبہ کو چاہئے کہ نہ بدنیتی ہو اور نہ بے نیتی ہو، بلکہ حسن نیت کے ساتھ علم حاصل کریں، اپنی نیت کو بار بار ٹٹولتے رہا کریں، اپنا مقصد متعین کریں، منزل کا