اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
حضرت مفتی محمودالحسن صاحبؒ کے یہاں بھی حفاظت اوقات کا بڑا اہتمام تھا ، حتی کہ کھانا کھاتے ہوئے بھی کتابیں پڑھایا کرتے تھے ، چوبیس گھنٹے کی زندگی مشین کی طرح متحرک رہتی تھی۔ کوئی وقت بھی بیکار نہیں جاتا تھا۔ ایک مرتبہ مغرب کے بعد ایک طالب علم حاضر خدمت ہوئے حضرت اس وقت کھانا تناول فرمارہے تھے، وہ سلام کرکے خاموش گردن جھکاکربیٹھ گئے، حضرت نے فرمایانوراللہ ! کیا خاموش بیٹھے ہو ؟ عرض کیا جی نہیں حضرت! قرآن شریف پڑھ رہا ہوں تو فرمایا ہاں ! وقت کو ضائع نہیں کرنا چاہیئے۔ مولائی و سیدی حضرت اقدس مولانا قاری صدیق احمد صاحب باندوی دامت برکاتہم کے یہاںبھی احقر نے اوقات کا بڑا اہتمام دیکھا، ہر وقت کسی نہ کسی کام میں مشغولی ہے۔ ماہ مبارک کا آخری عشرہ تھا، علالت وآپریشن کے سبب ضعف بہت تھا اس لئے ایک دو آدمی کے سہارے چلتے پھرتے تھے، چنانچہ افطار کے وقت اپنے معتکف سے مسجد کے صحن میں عام دسترخوان پر ایک صاحب کے سہارے تشریف لائے، غروب قریب تھا، حضرت نے فرمایا کتنا وقت باقی ہے؟ کہاگیا دومنٹ ، تو فرمایا بھائی پہلے بتادیتے۔ اگر ایک منٹ بھی ہوتا توکچھ کام کرلیتے، اللہ اکبریہ ہے اکابر کے یہاں اوقات کی قدردانی۔امام رازیؒ اور حفظ اوقات امام رازی ؒ کے نزدیک اوقات کی اہمیت اس درجہ تھی کہ ان کو یہ افسوس ہوتا تھا کہ کھانے کا وقت کیوں علمی مشاغل سے خالی جاتا ہے۔ چنانچہ فرمایا کرتے تھے۔’’ وَاللّٰہِ اِنِّی اَتَاَسَّفُ فِی الْفُوَاتِ عَنِ الْاِشْتِغَالِ بِا لْعِلْمِ فْی وَقْتِ الْاَکْلِ فَاِنَّ الْوَقْتَ وَالزَّمَانَ عَزِیْزُٗ‘‘ یعنی خدا کی قسم! مجھ کو