اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
پیش لفظ خادم قرآن حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی حفظہ اللہ تعالیٰ (رئیس جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم ۔ اکل کوا) اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَی سَیِّدِالْاَنْبِیَائِ وَالْمُرْسَلِیْنَ وَعَلَی آلِہٖ وَصَحَبِہٖ اَجْمَعِیْنَ ۔ امابعد ! اللہ تعالیٰ نے عالم کائنات کا نظام صحیح رخ پر چلانے کے لئے اپنے بندوں کو اپنا ہی ایک عالم گیر دستور دیا ہے جو معصوم بندوں یعنی انبیائے کرام کے واسطے سے خدا کے بندوں تک پہنچتا رہا ہے ، سب سے اخیر میں آقائے دوجہاں ، فخر کون ومکاں محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں تشریف لاکر قیامت تک کے لئے اللہ تعالیٰ کا عالمی منشور قرآن کریم کو ابدی شکل میں بندگان خدا کو پڑھ پڑھ کر اور عمل کر کر کے صحابہ کرام ؓ جیسی ایک لاکھ سے زائد کی تعداد کو معیار بنا کر دستور حیات کو مکمل فرما دیا ۔ اگر بہ غور دیکھا جائے تو تمام انبیاء و رسل کی دعوت کا خلاصہ اور نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا خلاصہ بالخصوص دوچیزیں نکلتی ہیں ، ایک تعلیم دوسرے تربیت ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک طرف صفہ میں صحابہ کرام کی ایک مخصوص جماعت کو مقدس دین اورتعلیم الٰہی دے کر سنوارنے میں مصروف عمل نظر آتے ہیں تو دوسری طرف راتوں میں اُٹھ کر محلوں میں گشت کرکے ان کی دینی تربیت کا جائزہ لیتے ہیں ۔ دن میں مسجد نبوی میں آپ آیات قرآنیہ کی تلاوت فرماتے ہیں تو رات میں صحابہ ٔ کرام کے گھروں کا گشت لگا کر تلاوتِ قرآن پر عمل کا جائزہ لیتے ہیں۔ دن میں ممبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حلال وحرام کا درس ہوتا ہے تو رات میں صحابہ ٔ کرام کا خود بہ نفس نفیس جائزہ لیا جاتا ہے۔