اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
مولانا نورالحسن صاحب کاندہلوی مشہور اکابر علماء میں ہیں، طلب علم کا ان کو اتنا شوق تھا کہ مفتی صدر الدین صاحب نے ان کی درخواست پر وقت نہ ہونے کا عذر کردیا، لیکن مولانا کے شدیداصرار پر مفتی صاحب نے یہ کہا کہ کچہری جاتے آتے وقت مل سکتا ہے، مولانا نے اسکو قبول فرما لیا اور جب مفتی صاحب پالکی میں کچہری تشریف لے جاتے تو مولانا پالکی کے ساتھ دوڑتے ہوئے سبق پڑھتے جاتے اور کچہری جانے پر مولانا وہیں انتظار میں بیٹھے رہتے ، جب واپس آتے تو واپسی میں بھی اسی طرح پالکی کے ساتھ دوڑتے ہوئے سبق پڑھتے جاتے، مفتی صاحب نے کئی مہینے جب اس شوق اور طلب کو دیکھا تو مستقل وقت تجویز کردیا،(آب بیتی) مولانا محمد یحییٰ صاحب کو علم کا بے انتہا شوق تھا، خو د ہی فرمایا کرتے تھے کہ والد صاحب کو وضو کے اور ادکا خاص اہتمام تھا اور ہم پر بھی اصرار تھا کہ پابندی کریں ،مگر مجھے علم کی دھن تھی، اس لئے میں وضو کرتا ہوا بھی فارسی اور عربی کے لغات یاد کیا کرتا، والد صاحب میری رٹائی کو سنتے تو ملامت کے طور پر فرمایا کرتے تھے خوب وضو کی دعائیں پڑھی جارہی ہیں، شرم کی بات ہے۔ (تذکرۃ الخلیل)امام ابو یوسفؒ اور علمی شوق و شغف ابراہیم ابن الحراح کہتے ہیں کہ میں امام ابو یوسف کے مرض وفات میں ان کی عیادت کے لئے پہنچا تو دیکھا کہ ان پر غشی طاری ہے، تھوڑی دیر کے بعد آنکھیں کھولیں، اور مجھے دیکھ کر فرمایا،ابراہیم! بتائیے حاجی کے لئے پیدل رمی کرنا افضل ہے یا سوار ہوکر؟ میں نے کہا پیدل افضل ہے، فرمایا نہیں، میں نے کہا پھر سوار ہوکر، فرمایا نہیں، پھر خود ہی اس کی وضاحت فرمائی ۔ ابراہیم کہتے ہیں مجھے مسئلہ معلوم ہونے سے زیادہ اس بات پر تعجب ہوا کہ ابو یوسف ایسی بیماری کی حالت میں بھی علمی مذاکرات کے کتنے شوقین ہیں، اس کے