اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
کیانہیں دیکھتے جسے موتیوں کی تلاش ہوتی ہے ،وہ دریا میںغوطہ زنی کرتا ہے ۔امام طحاویؒ کا واقعہ تذکرۃ المحدثین میں امام طحاویؒ کے حالات میںلکھا ہے کہ ابتداء میں یہ اپنے ماموں امام مزنی کے درس میں شریک ہوتے تھے ، جو امام شافعیؒ کے ممتاز شاگرد اور فقہ شافعی کے بانیوں میں تھے ، ایک دن انہوںنے کوئی مسئلہ بیان کیا جس کو طحاویؒ باربار سمجھانے کے باوجود بھی نہیں سمجھ سکے ، اس پر انہوں نے غبی اورکند ذہن ہونے کا طعنہ دیا، اور کہا خدا کی قسم ! تجھے کچھ نہیں آسکتا ، امام طحاویؒ اس واقعہ سے اتنا متاثر ہوئے کہ امام مرنی کے درس میںجانا ہی چھوڑدیا، اور ابوجعفر ابن ابی عمران حنفی کے درس میں شریک ہوگئے ، اور پوری محنت وجانفشانی سے فقہ میں بڑی مہارت حاصل کی اور اپنے معاصرین پر گوئے سبقت لے گئے ، ایک روز وہ امام مزنی کی قبرسے گذرے تو فرمایا اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے اگر یہ زندہ ہوتے تو اپنی قسم کا کفارہ اداکرتے ،اور امام طحاوی کو اللہ تعالیٰ نے وہ مقام عطاکیا کہ دنیا نے اسی کندذہن کو امام تسلیم کیا، محنت اور جدوجہد کے ایسے ہی نتائج ہوتے ہیں۔علامہ تفتازانی کا واقعہ علامہ سعدالدین تفتازانی کے حالات میں لکھا ہے کہ آپ ابتداء میں بہت کند ذہن تھے، قاضی عضدالدین کے حلقۂ درس میں آپ سے زیادہ غبی کوئی نہ تھا ، مگر جدوجہد ،سعی وکوشش اور مطالعۂ کتب میں سب سے آگے تھے ، برابر لگے رہتے تھے ۔ ایک مرتبہ آپ نے خواب میں دیکھا کہ کوئی شخص ان سے کہہ رہا ہے کہ سعدالدین ! چلو سیروتفریح کرآئیں ، آپ نے جواب دیا کہ میں سیروتفریح کیلئے نہیں پیدا کیا گیا ، میں انتہائی محنت اور مطالعہ کے باوجود کتابیں نہیں سمجھ پاتا، تفریح