اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
یکساں نظر آوے، آئندہ کچھ لوگ ایسے پیدا ہونگے جو علم حاصل کریں گے مگر علم ان کے گلے کے نیچے نہ اتریگا، ان کا باطن ان کے ظاہر کے مخالف اور ان کا علم ان کے عمل کے بر خلاف ہوگا۔ پس علم کا صحیح اور انفع طریق جس سے علم میں پختگی و وثوق اور عمل کے لئے بیتاب کرنے والا یقین حاصل ہویہی ہے کہ جس میں عمل علم کے ساتھ ساتھ ہو اور علمی جدوجہد کے پلہ بہ پلہ عمل کرنے کرانے کی کوشش جاری رہے، علم کے ساتھ عمل کی اور عمل کے ساتھ علم کی تکرار ہوتی رہے۔دور صحابہؓ میں طرز تعلیم چنانچہ حضرات صحابہ کے علم میں جو بصیرت و وسعت فہم، انکشاف حقیقت اور پختگی و وثوق تھا اس کی وجہ یہی تھی کہ ان کے پاس حصول علم کا یہی طریقہ تھا کہ تھوڑا تھوڑا سیکھتے تھے مگر اس طرح کہ سیکھنے کے ساتھ ساتھ عمل کرتے جاتے تھے جتنا پڑھتے علم کے پہلو بہ پہلو عملی مشق جاری رکھتے، ابوعبدالرحمن السلمی اس طرز تعلیم کو یوں بیان کرتے ہیں۔ حَدَّثْنَا مَنْ کَانَ یُقْرِئُنَا مِنْ اَصْحَابِ النَّبِیِّؐ اَنّھُمْ کَانُوْایَأ خُذُوْنَ مِنْہُ عَشَرَ آیَاتٍ وَلَایَأ خُذُوْنَ فِی الْعَشْرِالْاُخْرٰی حَتّٰی یَعْمَلُوْامَاشفِی ہٰذِہٖ مِنَ الْعِلْمِ وَالْعَمَلِ قَالَ فَتَعَلَّمْنَا الْعِلْمَ وَالْعَمَلَ (جمع الفوائد) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جو صحابی ہم کو پڑھاتے تھے انہوں نے بیان کیا کہ (صحابہ کا طرز تعلیم یہ تھا کہ) وہ حضور ؐ سے دس آیتیں سیکھتے تھے، پھر جب تک یہ نہ سیکھ لیتے تھے کہ ان دس آیتوں میں علم و عمل (کی کیفیت و مقدار) کیا ہے ،دوسری دس آیات نہیں سیکھتے تھے راوی کہتے ہیں کہ ہم نے علم و عمل کو ساتھ ساتھ سیکھا ہے۔ (دعوت علم و عمل)