اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
ادب ہے، مثل مشہور ہے ’’باادب بانصیب بے ادب بے نصیب‘‘ ادب واحترام سے انسان ترقی کے مراحل طے کرتا ہے اور بے ادبی کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ سربلندی وسرخروئی حاصل نہیں کرپاتا بلکہ بسا اوقات ذلت ورسوائی سے دوچار ہوتا ہے ۔ دین کی بنیاد ادب پر ہے، بے ادب کویہ دولت حاصل نہیںہوتی، حضرت امام شافعی ؒ کہا کرتے تھے کہ جو شخص دولت کے زور اور خودی کے گھمنڈ میں طالب علمی کرتا ہے وہ ناکام رہتا ہے ، البتہ جس نے خاکساری ، تنگ دستی اور احترام علم کے ساتھ طالب علمی کی وہ کامیاب ہوگا، (جامع البیان) علم کا ادب واحترام اور علم کے تعلق سے ہر عالم وحافظ کا اور کتب علم کا اور آلات علم، کاغذ ، قلم ، دوات ، رحل ، تپائی وغیرہ کا ، مدرسہ کا ، درس گاہ کاادب واحترام بھی ضروری ہے۔ حضرت مولانا احمدعلی سہارنپوری نے لکھا ہے کہ یہ جو بعض طلبہ بائیں ہاتھ میںدینی کتب اور دائیں ہاتھ میں جوتے لے کر چلتے ہیں بہت مذموم ہے، کیونکہ خلاف ادب ہے اورصورۃً جوتوں کو فوقیت دیناہے کتب دینیہ پر۔اسلاف کا دینی کتب اور آلات علم کا ادب حضرت تھانوی نوراللہ مرقدہٗ کے پاس ایک چمڑے کا بیگ تھا، کسی مخلص خادم نے بنوایا تھا اور چمڑے میںلفظ ’’محمداشرف علی‘‘ کندہ کرایا تھا، اس کا حضرت اتنا ادب کرتے تھے کہ حتی الامکان نیچے اور جگہ بے جگہ نہ رکھتے تھے۔ ایک لفافہ پر روشنائی گرگئی تھی تو اس پر حضرت نے یہ لکھ دیا کہ ’’بلا قصد روشنائی گرگئی‘‘ اوروجہ بیان فرمائی کہ یہ اس لئے لکھ دیا کہ قلت اعتناء پرمحمول نہ کریں جس کا سبب قلت احترام ہوتا ہے ۔