اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
کرونگا توکیا حال ہوگا؟ وہ شخص یہ سنکر چلاگیا ، کچھ دیر کے بعد پھر آیا اور اسی طرح کہا آپ نے پھر انکار کیا ، تیسری مرتبہ وہ پھر آیا اور کہا کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم یاد فرمارہے ہیں ، اس مرتبہ آپ گھبراکراٹھے اورننگے پاؤں چل پڑے ، شہر کے باہر ایک جگہ کچھ درخت تھے ، وہاں پہنچے تو دیکھا کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابۂ کرام کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف فرماہیں ، آپ کو دیکھ کر حضور ؐ نے تبسم آمیز لہجہ میں ارشاد فرمایا کہ میں نے تم کو باربار بلایا، تم نہیں آئے ،آپ نے عرض کیا حضورؐ! مجھے معلوم نہیں تھا کہ آپ یاد فرمارہے ہیں، اس کے بعد آپ نے اپنی غباوت کی شکایت کی، تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اِفْتَحْ فَمَکَ منہ کھولو ، آپ نے منہ کھولا، حضور اکرم نے اپنا لعاب ذہن آپ کے منہ میں ڈالا اور دعا دے کر فرمایا کہ جاؤ ، بیدارہوکر جب آپ اپنے استاذ قاضی عضدالدین کی مجلس میںحاضر ہوئے اوردرس شروع ہوا تواثنائے درس میں آپ نے کئی اشکالات کئے تو ساتھیوں نے خیال کیا کہ یہ سب بے معنی اشکالات ہیں ۔ مگر استاذ تاڑگئے اور فرمایا ، یاسعد ! اِنَّکَ الْیَوْمَ غَیْرُکَ فِیْمَامَضٰی ‘‘ سعد آج تم وہ نہیںہو جو اس سے پہلے تھے، تو آپ نے واقعہ سنایا ، اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل وکرم اورحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہات آپ کی محنت ،جدوجہد اورذوق وشوق کی وجہ سے تھیں۔طلباء میں احساس کمتری آج کل ہمارے طلبہ بہت ہی تنگ ظرف ہوگئے ، اپنادائرہ کار بہت ہی محدود بنادیا اور احساس کمتری کے شکار ہوگئے کہ اب ہم سے کیا ہوسکتا ہے، بڑے بڑے کارنامے انجام دینے والے چل بسے ، اب اس کا تصورکہاں؟ نہیں !بلکہ آپ کو اپنی منزل کا تعین کرلینا چاہئے، اپنادائرۂ کار بہت وسیع