اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
سب واپس کردئے اور کہلا بھیجا ’’ میرا سالانہ خرچ صرف پندرہ روپئے ہے‘‘ صبح کو دو روٹیوں اور ہفتہ میں تین مرتبہ گوشت کی ضرورت ہوتی ہے اور اس وقت میرے پاس پچاس روپئے موجود ہے اگر یہ سارے خرچ ہوجائیں اور میں زندہ رہوں تو پھر خدا دینے والاہے آج کون ہے؟ جو اس قناعت اور بے غرضی کا نمونہ پیش کرسکے۔ (نظام الملک طوسی حصہ دوم) ایک مرتبہ شہنشاہ عالمگیر نے صوبہ کشمیر کو لکھا کہ کشمیر کے نامی علماء کو ہماری طرف سے بطور پرورش جاگیرات اور زر نقد عطا کیا جائے، صوبۂ کشمیر نے جب اس پر عمل کرتے ہوئے علامہ عبدالشکور کو زر نقد بھیجا اور جاگیر کی خوش خبری سنائی تو انہوں نے عالی ہمتی سے کام لے کر دونوں باتوں سے انکار کردیا اور کہا کہ میں عالم نہیں ہوں اور نہ علم کی اشاعت اس غرض سے کرنا چاہتا ہوں، جو کچھ مجھے اللہ نے اپنے فضل و کرم سے تھوڑی بہت علم دین کی نعمت عطا کی ہے میں بطور صدقہ جاریہ اپنی خوشی سے خلق خدا کو پہنچا رہا ہوں، اس جواب سے علامہ کی وقعت اور بھی زیادہ ہوگئی۔بابا فرید الدین گنج شکر کا استغناء سلطان ناصر الدین ایک مرتبہ سلطان غیاث الدین بلبن جس کا نام الف خان تھا کے ساتھ اوچھ اور ملتان کی طرف گیا ، جب پاک پتن میں پہنچا تو الف خان کے ہاتھ حضرت بابا فرید الدین گنج شکر کے پاس کچھ زر نقد معہ فرمان معافی جاگیر و عطیہ بھیجا اور زبانی یہ پیغام دیا کہ جو کچھ حاضر کیا جاتا ہے وہ آپ کے لئے نہیں بلکہ آپ کے متعلقین اور مسافروں کے لئے ہے جو اکثر آپ کے پاس فیض حاصل کرنے کے لئے آتے رہتے ہیں، حضرت نے فرمایا کہ زر نقد تو فقراء پر تقسیم کردو اور مصائب و آفات کا یہ پیش خیمہ یعنی یہ فرمان جاگیر واپس لے جائو۔