اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
جوپتے ادھرادھر گرجاتے تھے، ان کو اٹھاکرلاتے اور دھوکر پکالیتے، پھر لڈوتیار کرکے رکھ لیتے اور ایک ایک کرکے کھالیتے، اس طرح بھوک کا دفعیہ کرتے، ؎ در حقیقت ہیں زمانے میں وہی خوش تقدیر نام مرنے پہ بھی مٹتا نہیں جن کا زنہار حضرت مولانا محمدیٰسین صاحب (والد ماجد حضرت مولانا مفتی شفیع صاحب) نے طالب علمی کا پورازمانہ عسرت اور تنگ دستی میں بسرکیا ، ایک روز آپ گرمی کی دوپہر میں دارالعلوم کے اسباق سے تھک تھکاکر چھٹی کیوقت گھر پہنچے، تو والدہ نے آبدیدہ ہوکر اپنے لائق فرزند سے کہا: بیٹاآج تو گھر میں کھانے کیلئے کچھ نہیں ہے، البتہ ہماری زمین میںگندم کی فصل تیار کھڑی ہے، اگر تم اس میںسے کچھ گندم کاٹ لاؤ تو میں اس کو صاف کرکے آٹا پیس کرروٹی پکادوںگی، سعادت مند بیٹا محنت اور بھوک سے درماندہ اسی گرمی کی دوپہر میں اپنی زمین کی طرف چل دیااوروہاں سے جس قدر بوجھ اٹھاسکتا تھا اتنے گندم کاٹ کر لے آیا، والدہ نے اسے کوٹ چھان پیس کرآٹا بنایا اور روٹی پکائی ، اس طرح ظہر کے وقت تک بھوک کا کچھ سامان ہوا، ظہر کے بعد اپنے اسباق کیلئے چلے گئے ، ماں باپ اور بیٹے نے اسی فقروفاقہ میں وقت گذارا مگر تعلیم میں فرق نہ آنے دیا۔ (بڑوں کا بچپن)ابوحاتم رازیؒ اور علم کیلئے مشقتیں اٹھانا ابوحاتم رازی جو علل کے امام ہیں ان کے حالات میں لکھا ہے کہ ’’رَحَلَ وَھُوَاَمْرَدُ‘‘ یعنی سبزہ آغاز ہونے سے پہلے ہی طلب حدیث میں وطن سے نکل پڑے، برسوں سفرمیں رہتے، وطن واپس لوٹتے اور پھر روانہ ہوجاتے ، خودان کا بیان امام ذھبی نے نقل کیا ہے۔ ’’اَوَّلُ مَارَحَلْتُ اَقَمْتُ سَبْعَْ سِنِیْنَ‘‘ (تذکرہ ۲/۲۳۱ )پہلی دفعہ