اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
امام شافعیؒ کے مشہور اشعار ہیں۔ شَکَوْتُ اِلٰی وَکِیْعٍ سُوْئَ حِفْظِی ٭ فَاوْصَانِی اِلٰی تَرْکِ الْمَعَاصِی فَاِنَّ الْعِلْمَ نُوْرٌ مِنْ اِلٰہی ٭ وَنُوْرُاللّٰہِ لَا یُعْطٰی لِعَاصِی ترجمہ : میں نے اپنے استاد امام وکیع سے سوء حافظہ کی شکایت کی ، تو انہوںنے گناہوںسے بچنے کی تاکید فرمائی اور فرمایا کہ علم نورالٰہی ہے اور یہ نورنافرمان کوعطا نہیںہوتا، ……معلوم ہوا کہ علم نورالٰہی کانام ہے جوگنہگار کوحاصل نہیںہوتا، اگر محض الفاظ دانی کا نام علم ہوتا تووہ معاصی کے ساتھ بھی جمع ہوجاتا ہے بلکہ کفرکے ساتھ بھی ۔ (العلم والعلماء)علم حقیقی اور اس کی علامات علم حقیقی ورسمی کی علامات بیان کرتے ہوئے علامہ رومیؒ فرماتے ہیں ؎ علم چہ بود آنکہ رہ بنما یدت ٭ زنگ گمراہی زدل بزدایدت ایں ہوس را از سرت بروں کند ٭ خوف و خشیت درد دلت افزوں کند یعنی حقیقی علم وہ ہے جو تم کو سیدھی راہ دکھادے اورگمراہی کے زنگ کو تمہارے دل سے صاف کردے ، یہ ہوائے نفسانی کو تمہارے اندر سے دور کردے اور خوف وخشیت تمہارے دل میں پیداکردے ۔ حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں۔ اَلْعِلْم عِلْمَانِ فَعِلْمٌ فِی الـْقَلْبِ فَذَالِکَ الْعلْمُ النَّافِعْ وَعِلْمٌ عَلَی اللِّسَانِ فَذَالِکَ حُجَّۃُ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ عَلٰی اِبْنِ آدَمَ رواہٗ الدارمی (مشکوٰۃ) علم دوطرح کا ہے ، ایک علم دل میں ہوتا ہے، یہی نفع بخش علم ہے اور دوسرا علم زبان پر ہے جو اللہ کی طرف سے انسان پر حجت ہے۔ معلوم ہوا کہ حقیقی اور نافع علم وہ ہے جس سے اَوّلاً قلب متاثر ہوتا ہے پھر