اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
کے شیخ الاسلام ہیں، سفرحج میں ان سے ملاقات ہوئی تو فرمایا کہ یہ سب شاہ صاحب کی خدمت کا ثمرہ ہے۔ ایک صاحب نے حضرت تھانویؒ کی تصانیف کا جو ایک ہزار کے قریب ہیں،ذکر کرکے عرض کیا آپ نے اتنی تصانیف فرمائی ہیں توہزاروں کتابیں دیکھی ہوں گی، حضرت نے فرمایا چند کتابیں دیکھی ہیں جن کے نام یہ ہیں ۔ ۱) حاجی امداداللہ ۲) حضرت مولانا یعقوب صاحب ۳) حضرت مولانا رشید احمدگنگوہی وغیرہم ۔ ان کتابوں نے مجھے دوسری سب کتابوں سے بے نیاز کردیا، مطلب یہ کہ یہ سب کچھ انہی اساتذہ کی تعظیم واعتقاد اور خدمت سے پایا ہے۔ (مجالس حکیم الامت)طلبہ کا اساتذہ سے باہم ربط حضرت تھانوی نوراللہ مرقدہٗ ارشاد فرماتے ہیں کہ ہمارے زمانے میںطلبہ پر اپنے اساتذہ کے سواکسی کا رنگ واثر نہ جمتا تھا، طلبہ کو اپنے اساتذہ کے ساتھ خاص عقیدت ومحبت اور اساتذہ کو ان پر خاص شفقت ہوتی تھی، اب مزاج ومذاق بدل گئے ، طلبہ واساتذہ میں وہ تعلق قائم نہیںرہا ، اس لئے علمی ذوق اورعلمی رنگ بھی ان میںپیدا نہیںہوتا اور کسی رنگ میں بھی پختہ نہیںہوتے ، علمی استعداد اور عملی تربیت سب ہی کمزور ہوگئیں ۔ اس لئے مدارس میں طلبہ کی تربیت اور اساتذہ کی خدمت کا جذبہ پیدا کرنا او رایسے طریقے اختیار کرنا بہت ضروری ہے کہ طلبہ واساتذہ میںباہم ربط ومناسبت پیدا ہو۔ حضرت گنگوہی کوحضرت حاجی صاحب (امداداللہ مہاجر مکی) سے اس درجہ لگاؤ تھا کہ فرمایا کرتے تھے اگر مجلس میںحضرت جنید بغدادی اور حضرت حاجی