اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
تذکرۃ السامع والمتکلم میں لکھا ہے کہ طالب علم اپنے استاذ اورعالم کے کلام سے اسی وقت نفع اندوز ہوسکتا ہے ، جب اس میں تین خصلتیں ہوں۔ (۱) تواضع (۲) علم کی حرص (۳) اور استاذ کی تعظیم ، تواضع سے علم کی راہ کھلے گی ، حرص وطلب پر علم کا فیضان ہوگا اور استاذ کی تعظیم سے استاذ مہربان ہوجائیگا ۔اساتذہ کے بعض آداب وحقوق استاذ کے سامنے نہایت ادب سے بیٹھے، جس سے تواضع اورخشوع وسکون مترشح ہوتا ہو اورہمہ تن اس کی طرف متوجہ رہے، کسی ساتھی کی طرف نہ دیکھے، نہ اشارہ کرے، نہ مسکرائے بغیر مجبوری دائیں ، بائیں ، اوپر،نیچے نہ دیکھے، کوئی شور سن کر مضطرب نہ ہو اور ادھر متوجہ نہ ہو، استاذ کے پاس بیٹھا ہوا آستین نہ چڑھائے ، ہاتھ، پیر ، دامن گھنڈی ، بٹن سے نہ کھیلے، داڑھی اور منہ پرہاتھ نہ رکھے، انگلیاں نہ چٹخائے، ناک ، کان دانت نہ کریدے، زمین پر ہاتھ نہ رکھے، نہ اس پر لکیر بنائے ، کاغذ ، قلم وغیرہ سے فضول حرکت نہ کرے، پیچھے کو جھکا ہوا نہ بیٹھے ، استاذ کی طرف پیٹھ یا پہلو نہ کرے، کسی چیز سے ٹیک نہ لگائے، تپائی وغیرہ کسی چیز پر ہاتھ ٹیک کر نہ بیٹھے ، ہاتھ پر ٹیک اورسہارا لگاکر نہ بیٹھے ، زیادہ بات نہ کرے ، بغیر مجبوری کے نہ کھنکارے، نہ تھوکے نہ بلغم نکالے، چھینک آئے تو منہ چھپالے ، جمائی لے تو منہ نہ کھلے، نہ آواز ہونے دے او ربائیں ہاتھ کی پشت سے ڈھانک لے، استاذ کے سامنے پان کھاکر نہ آئے اور درس میں اور بھی زیادہ خیال رکھے حتی کہ کتاب کا ورق بھی زور سے نہ کھولے ، نہ کتاب کو تپائی پر زور سے رکھے نہ زور سے بندکرے، استاذ کے آگے نہ چلے، اس کی جگہ پر نہ بیٹھے ، اس کے سامنے بلند آواز سے نہ بولے، اس کی منشاء معلوم کرنے اورسمجھنے کی کوشش کرتا رہے اور اس کے مطابق عمل کرے، درس میںکوئی بات سمجھ میں نہ آوے تواپناقصور فہم سمجھے، استاذ سے بدگمانی نہ کرے، استاذ اگرکسی بات پر غصہ کرے تو اس کے سامنے منہ نہ