اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
رہتا ہے ،تو پھر ایسا عظیم سرمایہ جس میں دونوں جہاں کی عزت اور کامیابی کا راز مضمرہے ،یہ بغیر محنت کے کیسے حاصل ہوسکتا ہے۔ ایک شاعر کہتاہے ؎ عَلَی الْمَرْئِ اَنْ یَسْعٰی لِمَافِیْہِ نَفْعُہٗ وَلَیْسَ عَلَیْہِ اَنْ یُّسَاعِدَہٗ الدَّھْرُ آدمی پر لازم ہے کہ وہ اپنے نفع کی چیزمیں کوشاں رہے اس کیلئے زمانہ کا سازگار ہونا کوئی ضروری نہیں ہے، بلکہ ناموافق حالات میںبھی اس کے پیچھے لگے رہنا چاہئے، اسی سے اس کے اندر کے پوشیدہ جواہر کھلتے ہیں اور مخفی صلاحتیں اجاگر ہوتی ہیں۔ اقبال نے خوب کہا ہے ؎ بے محنت پیہم کوئی جوہر کھلتا ہی نہیں روشن شرر تیشہ سے ہے خانۂ فرہادکیا فیضان علم کا معیار ذہانت وقابلیت ہے؟ اللہ تعالیٰ جب علم کی دولت کسی کو دینا چاہتے ہیں تو ذہانت وصلاحیت کو نہیں دیکھتے ، بلکہ جب انہیں نوازناہوتا ہے تو صلاحیت خود ہی پیدا کردیتے ہیں۔ ؎ دادویرا قابلیت شرط نیست بلکہ شرط قابلیت داد ویست وہاں تو طلب، لگن اور محنت کو دیکھا جاتا ہے ، آدمی جتنی لگن کے ساتھ محنت کرتا ہے اور علم کی دھن پیدا کرکے لگارہتا ہے اسی کے بقدر یہ دولت اسے ملتی ہے ، چاہے کندذہن ، غبی اور کمزور ہی کیوں نہ ہو، اس کی محنت رائیگاں نہیں جاتی۔ ارشاد باری عزاسمہ ہے، اِنَّ اللّٰہَ لَایُضِیْعَ اَجْرَالْعَامِلِیْنَ کام کرنے والوں کی محنت کو اللہ تعالیٰ ضائع نہیںکرتے۔ ہمارے اسلاف کے ایسے بیسیوں واقعات ہیں کہ طالبعلمی کے زمانہ میں کمزور اور کند ذہن تھے، لیکن کام میں لگے رہے ،ہمت نہیںہارے تو اللہ تعالیٰ نے