اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
ہے، نہ اس کو قرآنی آیات صحیح سمجھنے کی توفیق باقی رہتی ہے اور نہ آیات قدرت میں غور وفکر کرکے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے میں اس کا ذہن چلتا ہے۔ تفسیر روح البیان میں ہے کہ اس سے معلوم ہوا کہ تکبر ونخوت ایک ایسی بری خصلت ہے جو علوم ربانیہ کے لئے حجاب بن جاتی ہے، کیونکہ علوم ربانیہ صرف اس کی رحمت سے حاصل ہوتے ہیں اور رحمت خداوندی تواضع سے متوجہ ہوتی ہے۔ (معارف القرآن نمبر۴/۶۶) مولانا رومی نے خوب فرمایا ؎ ہر کجا پستی ست آب انجا رود ہر کجا مشکل جواب آنجا رود رحمۃ المتعلمین میں ہے کہ علم پر ناز نہ کرے بلکہ اللہ کی نعمت سمجھ کر اس کا شکر ادا کرتا رہے، ورنہ نعمت چھن جائیگی اور یہ واقعہ بھی لکھا ہے کہ ایک عالم کا دماغ فالج سے خراب ہوگیا اور کل علم بھول گیا۔اسلاف کی شان تواضع امام مالکؒ سے جب فتویٰ اور مسئلہ پوچھا جاتا اور اس وقت اس جزئیہ پر اطلاع نہ ہوتی تو نہایت کشادہ پیشانی کے ساتھ فرماتے تھے کہ ’’لاادری‘‘ میں نہیں جانتا ، میں نہیں جانتا، یہ نہیں کہ بات گول گول کریں اور گھما پھرا کر اپنی شان باقی رکھیں، جیسے عموماً ہوتا ہے۔ اور ایسا ایک دوبار نہیں ہوا بلکہ امام کے شاگرد ابن وھب کہتے ہیں کہ اگر میں امام مالک کی ’’لاادری‘‘ لکھا کرتاتو کتنی تختیاں بھر جاتیں۔ (تذکرۃ المحدثین) اندازہ لگایئے ! یہ اس شخص کا حال ہے جس کے علم وفضل کا ڈنکاپوری دنیائے اسلام پر بجتا ہے اور جس کے علومقام کے اس کے اساتذہ معترف تھے، امام کے حلقۂ فیض میں جس کثرت جس رتبے اور جتنے طبقات کے لوگ داخل ہیں، وہ