اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
سے پہنچانا جائے جس وقت کہ لوگ ہنس بول رہے ہوں، اپنی خاموشی اور سکوت سے پہنچانا جائے جس وقت کہ لوگ ادھر ادھر کی ہانک رہے ہوں، یعنی شب زندہ دار ہو صائم النہار ہو، آخرت کا استخصار ہو، عاقبت سے متفکر ہو، خوف و خشیت خداوندی حاصل ہو، خاموش طبیعت ہو، تواضع و مسکنت کا جوہر نمایاں ہو، پس ان اوصاف کو طلبہ اپنے اندر پیدا کرنے کی کوش کرتے رہیں۔ (روح البیان) عطا فرماتے ہیں کہ جملہ اخلاق حمیدہ کی اصل تواضع ہے اور تمام رذائل کی اصل اور ام الامراض کبر ہے۔ اَرٰی لَکَ نَفْسًا تَشْتَہِیْ اَنْ تُعِزَّہَا فَلَسْتَ تَنَالُ الْعِزَّحَتّٰی تُذِلَّہَا اگر تمہیں عزت کی تلاش ہے تو خوب سمجھ لو کہ ذلت و پستی میں جب تک اپنے آپ کو نہیں ڈالو گے اس وقت تک عزت کے مقام پر نہیں پہنچ سکتے۔تکبر انسان کو فہم سلیم اور علوم الہیہ سے محروم کردیتا ہے ارشاد باری عزاسمہ ہے سَاَ صْرِفُ عَنْ آیَاتِی الَّذِیْنَ یَتَکَبَّرُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَاِذْیَرَوْا کُلَّ آیَۃٍ لَایُؤْمِنُوْا بِھَا وَاِنْ یَّرَوْاسَبِیْلَ الرُّشْدِ لَایَتَّخِذُ وْہٗ سَبِیْلًا o میں ایسے لوگوں کو اپنے احکام سے برگشتہ ہی رکھو نگا جو دنیا میں تکبر کرتے ہیں ،جن کا ان کو کوئی حق حاصل نہیں ہے اور (برگشتگی کا ان پر یہ اثر ہوگا کہ) اگر تمام نشانیاں (بھی) دیکھ لیں تب بھی ان پر ایمان نہ لاویں اور اگر ہدایت کا راستہ دیکھیں تو اس کو اپنا طریقہ نہ بنائیں۔ خلاصہ مضمون آیت کا یہ ہے کہ تکبر یعنی اپنے آپ کو دوسروں سے بڑا اور افضل سمجھنا ایسی مذموم و منحوس خصلت ہے کہ جو شخص اس میں مبتلا ہوتا ہے اس کی عقل و فہم سلیم نہیں رہتی، اسی لئے وہ اللہ تعالیٰ کی آیات کو سمجھنے سے محروم ہوجاتا