اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
قطب الدین رازی سے ملے، اس وقت ان کی عمر کے آخری ایام چل رہے تھے قوی جواب دے چکے تھے، تو انہوں نے میر سید شریف سے کہا کہ تم میرے شاگرد مبارک شاہ کے پاس قاہرہ میں جاکرپڑھو، ان کا پڑھانا میرا پڑھانا ہے اور ساتھ میں سفارش بھی لکھ دی۔ چنانچہ وہ قاہرہ پہنچ کر مبارک شاہ سے ملے، استاذ کی سفارش پر حلقۂ درس میں داخلہ کی اجازت تو مل گئی، مگر مستقل درس مقرر نہ ہوسکا، مبارک شاہ کا مکان مدرسہ سے بالکل متصل تھا اور اس کا دروازہ بھی مدرسہ ہی کی جانب تھا، ایک مرتبہ یہ دیکھنے کے لئے کہ طلبہ کیا کررہے ہیں، رات کو چپ چاپ نکلے اور جس حجرے میں میر سید شریف مقیم تھے وہاں آئے ،اس وقت میر سید شریف کتاب کا تکرار کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے ’’ قَالَ الْمُصَنِّفُ کَذَا، قَالَ الْاُسْتَاذُ کَذَا وَاقُوْلُ کَذَا‘‘ مبارک شاہ ٹھہر گئے اور کان لگا کر غور سے سننے لگے، میر صاحب کی تقریر کا انداز بیان اتنا دلچسپ تھا کہ مفتاح السعادۃ میں لکھا ہے لَحِقَہٗ الْبَہْجَۃُ وَالسُّرُوْرُ بِحَیْثُ رَقَصَ فِی فِنَائِ الْمَدْرَسَۃِ استاذ کو مسرت و خوشی اتنی ہوئی کہ مدرسہ کے صحن میں رقص کرنے لگے اور اس واقعہ سے اتنے متاثر ہوئے کہ صبح سے ان کا مستقل درس مقرر کردیا۔حضر ت نانوتوی اور حضرت گنگوہی کا باہم علمی مباحثہ حضرت مولانا قاسم صاحب نانوتوی اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی کا طالب علمی کا زمانہ قریب قریب یکجا گزرا ہے، دونوں بزرگوں میں علمی مباحثے اور مذاکرے بھی خوب ہوتے تھے، کبھی کسی مسئلہ پر بحث چھڑ جاتی تو گھنٹوں تک چلا کرتی تھی ،ان دونوں مشہور طالب علموں کا مباحثہ کچھ ایسانہ ہوتا تھا جس کو دلچسپی کی نظر سے نہ دیکھا جاتا، اساتذہ بڑے شوق اور تعجب سے اس بحث کو سنتے اور سرتاپا کان ہوکر اس