اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
وَہِیَ مِنْ عـَوَالِی الْمَدِیْنَۃِ وَکُنَّا نَتَنَا وَبُ النُّزُوْلَ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَنْـزِلُ یَوْمًا وَاَنْزِلُ یَوْمًا فَاِذَا نَزَلْتُُ جِئْتُہٗ بِخَبَرِذَلِکَ الْیَوْمِ مِنَ الْوَحْیِ وَغَیْرِہٖ وَاِذَا نَزَلَ فَعَلَ مِثْلَ ذٰلِکَ (بخاری۱/۱۹) مضافات مدینہ میں تھا رہتے تھے، ہم دونوں باری باری آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر ہوتے، ایک دن وہ حاضر ہوتا اور ایک دن میں ، جس دن میں حاضر ہوتا اس دن کی اطلاع اور احکام وغیرہ میں اسکو پہنچا دیتااور جس دن وہ حاضر ہوتا اس دن کی اطلاعات و احکام وہ مجھے پہنچا دیتا،دوسری قسم کے طلبہ یہ تو صحابہ کا عام رنگ تھا، ان کے علاوہ بعض طلبہ وہ تھے جنہوں نے اپنے آپ کو کاروباری اور معاشی ضروریات سے فارغ کرکے مستقل طور پر درسگاہ نبوی کے حوالہ کررکھا تھا ،جیسے آج کل طلبہ مستقل طور پر قیام مدرسہ میں رکھتے ہیں، لیکن وہاں پر اس طرح کی سہولیات مہیا نہ تھیں، پھر ان میں بھی دو طرح کے طلبہ تھے، ایک وہ جو ایک متعینہ مدت تک عارضی طور پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہتے، مختلف قبائل سے اور دور دراز مقامات سے دین سیکھنے کے لئے آتے اور ایک معین وقت تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں علم سیکھتے اور صحابہ سے علم حاصل کرتے رہتے، پھر واپس چلے جاتے، ان کی حاضری وقتی اور ہنگامی رہتی تھی، ایسے عام طالب علموں کی آمدو رفت کا سلسلہ کم و بیش ہمیشہ رہتا تھا، یہ لوگ وفود اور جماعتوں کی شکل میں آتے تھے، چنانچہ حدیث کی کتابوں میں ایسے وفود کے تذکرے ملتے ہیں وفد بجیلہ میں ایک سو پچاس افراد تھے، وفد نخع میں دو سو اور وفد مزینہ میں چار سو نفر تھے۔