اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
ہے؟ اللہ کے رسولؐ نے چار کام کئے، پہلے تلاوت آیات کی، یعنی بلاکم و کاست وحی کے الفاظ جو اللہ نے آ پکے قلب مبارک پر نازل کئے پڑھ کر سنادئے، اس کے بعد میں تعلیم دی، تعلیم تلاوت سے الگ ہے، تلاوت کا تعلق الفاظ سے ہے اور تعلیم کا تعلق معانی سے ہے، یعنی پہلے لفظ سنائے پھر معانی سمجھائے، اس کے بعد پھر تعلیم حکمت کی اور حکمت سے مراد یہاں اسوۂ حسنہ ہے یعنی کرکے دکھایا، اس لئے کہ حکمت کی دو قسمیں ہیں، ایک حکمت نظری اور ایک حکمت عملی، حکمت نظری تو تعلیم میں آگئی کہ نظر و فکر کی چیز تھی علمی صورت میں آپؐ نے بتلا دی، اب عملی صورت رہ جاتی تھی اس کو حکمت سے تعبیر کیا کہ عمل کا نمونہ پیش کردیا، تو علم بھی سکھلایا اور عمل کا نمونہ بھی دکھلایا، اس کے بعد چوتھی چیز بتلائی، ’’وَیُزَکِّیْہِمْ‘‘دلوں کو مانجھنا اور ان کو صاف کرنا، امت کا تزکیہ فرمانا اور ان کے نفوس میں استقامت پیدا کرنا، ریغ کجی اور ٹیڑھ نکال دینا، یہ بھی آپ کا ایک وظیفہ ہے۔ (ملحض از خطبات)تعلیم و تزکیہ کی یکجائی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام فرائض کو بحسن وخوبی انجام دیا لوگوں کو احکام الٰہی اور آیات ربانی پڑھ کر سنائے اور ان کو کتاب الٰہی اور حکمت ربانی کی باتیں سکھلائیں اور اسی پر اکتفا نہ کی، بلکہ اپنی صحبتِ فیض تاثیر اور طریق تدبیر سے پاک و صاف بھی کیا، نفوس کا تزکیہ فرمایا، قلوب کے امراض کا علاج کیا اور برائیوں اور بدیوں کے زنگ اور میل کو دور کرکے اخلاق انسانی کو نکھارا اور سنوارا، یہ دونوں ظاہری اور باطنی فرض یکساں اہمیت سے ادا ہوتے رہے، چنانچہ صحابہ اور ان کے بعد تابعین پھر تبع تابعین کے تینوں قرنوں تک یہ دونوں ظاہری و باطنی کام اسی طرح توأم رہے، جو استاذ تھے وہ شیخ تھے اور جو شیخ تھے وہ استاذ تھے، وہ جو مسند درس کو جلوہ دیتے تھے وہ خلوت کے شب زندہ دار اور اپنے ہم نشینوں کے