اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
امیرالمومنین کا‘‘ ! حجاج کی تلوار اور سفا کی مشہور ہے مگر حضرت حسن کی زبان اس کے زمانے میں بھی اظہار حق سے باز نہ آئی اور اس کے متعلق بھی انہوں نے اپنے ضمیر اور عقیدہ کے خلاف کوئی بات نہیں کہی۔ (تاریخ دعوت و عزیمت ج ا ص ۳۶)امام بخاری کی امیر بخارا سے آزادانہ گفتگو امام بخاری جب جامع علوم و فنون ہو کر اپنے وطن واپس آئے تو شہر کے لوگوں نے دھوم دھام سے آپ کا استقبال کیا، یہاں تک کہ دینار و درہم آپ پر نثار کئے گئے۔ جاہ طلب اور دین فروش لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں اور ہر مقبول و محبوب آدمی محسود ضرور ہوتا ہے، اس لئے اکثر علماء نے امیر بخارا (خالد ابن احمد الذہلی) کو آپ کی عزت و عظمت سے خوف دلایا، بظاہر ناراضگی کی کوئی وجہ نہ تھی، اس لئے امیر نے امام صاحب کے پاس اپنا آدمی بھیجا کہ آپ اپنی کتاب بخاری شریف اور تاریخ مجھے آکر سنا جایا کریں۔ آپ نے فرمایا امیر سے کہدو میں علم دین کوذلیل نہیں کرسکتا کہ سلاطین اور امراء کے دروازوں پر لئے پھروں، اگر امیر کو علم حدیث کی ضرورت ہے، خواہش ہے تو وہ میرے مکان یا میری مسجد میں آکرلوگوں کے ساتھ پڑھا کرے، کیونکہ حدیث رسول امراء و سلاطین کے لئے نہیں بلکہ عام مسلمانوں کیلئے بھی ہے۔ امیر آپ کے اس بے باکانہ جواب سے بہت ناراض ہوا اور آپ کو بخارا سے جلا وطن کردیا، آپ وہاں سے ختک (مضافات سمر قند) میں چلے گئے اور تھوڑے ہی عرصہ کے بعد آپ نے اسی جگہ انتقال فرمایا۔ (حوالہ بالا) واقعی ہمارے علماء و مشائخ پر ایک وہ زمانہ بھی گذرا ہے کہ بادشاہوں اور