اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
علم بدون عمل کے کارگر نہیں قرآن کریم میں حق تعالیٰ شانہٗ کا ارشاد ہے ’’ قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَایَعْلَمُوْنَ‘‘ اے پیغمبرؐ! آپ ان سے کہئے کہ علم والے اور جہل والے کہیں برابر ہوتے ہیں؟ (بیان القرآن) آیت بالا میں عالم سے مراد باعمل عالم ہے جیسا کہ ملا علی قاری ؒ نے لکھا ہے ’’مَنْ عَصَی اللّٰہَ فَہُوَ جَاہِلُٗ لِاَنَّ الْعِلْمَ اِذَالَمْ یَکُنْ مُوْرِثًالِلْعَمَلِ فَلَیْسَ عِلْمًا فِی الشَّرِیْعَۃِ‘‘ (مرقاۃ) ترجمہ: اللہ کا ہر نافرمان جاہل ہے، جو علم سبب عمل نہ ہو وہ شریعت میں علم نہیں ہے۔ علم آں باشد کہ بکشایدت رہے راہ آں باشد کہ پیش آید شہے علم وہ ہے جو عمل کا راستہ کھول دے اور راہ وہ ہے جو حق تعالیٰ تک پہنچا دے۔ ابراہیم بن ادہمؒ کہتے ہیں کہ مکہ میں ایک پتھر پر میرا گذر ہوا، اس پر لکھا تھا ’’اَقْلِبْنِی تَعْتَبِرْ‘‘ مجھے پلٹ کر عبرت حاصل کرو، میں نے اس کو پلٹا تو اس پر لکھا تھا ’’ اَنْتَ لَاتَعْمَلُ بِمَا تَعْلَمُ فَکَیْفَ تَطْلُبُ عِلْمَ مَالَمْ تَعْلَمْ‘‘ جب تم جانی ہوئی چیزوں پر عمل نہیں کرتے تو انجان چیزوں کی طلب میں کیسے لگتے ہو۔ ملا علی قاریؒ نے ابو یزید قدس سرہٗ کا یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ ان کا ایک مرید ان کے پیچھے اس طرح چل رہا تھا کہ جہاں جہاں ان کے قدم پڑتے وہیں وہ بھی اپنے قدم ڈالتا، آپ نے اس کی یہ حرکت جب دیکھی تو اس کی طرف مڑے اور جوش میں فرمانے لگے۔