اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
احمد بن حنبلؒ نے میرے پاس اپنا خرچ رکھا دیا تھا اور اس سے بقدر ضرورت وہ لیتے رہتے تھے، ایک دن میں نے ان سے کہا ابو عبداللہ! مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ عرب ہیں، انہوں نے جواب دیا یا اباالنعمان! نحن قوم مساکین، ابونعمان ہمارا کیا؟ ہم غریب لوگ ہیں، میں ان سے بہت پوچھتا رہا مگر انہوں نے ٹال دیا اور کوئی جواب نہیں دیا، بعض مرتبہ ان کو دیکھنے کے لئے غیر مسلم بھی دور سے آتے۔ ایک مرتبہ ایک عیسائی طبیب علاج کے لئے آیا، اس نے کہا کہ میں کئی سال سے آپ کی زیارت کا آرزو مند تھا، آپ کی زندگی صرف اسلام ہی کے لئے خیروبرکت کا باعث نہیں، ساری مخلوق کے لئے وہ خیر وبرکت ہے، ہمارے سب دوست آپ سے بہت خوش ہیں۔ مروزی کہتے ہیں کہ جب وہ چلا گیا تو میں نے عرض کیا کہ میرا خیال ہے کہ ساری دنیائے اسلام میں آپ کے لئے دعا ہوتی ہوگی، انہوں نے فرمایا کہ بھائی! انسان پر اپنی حقیقت منکشف ہوجاتی ہے تو کوئی کچھ کہے اس کو دھوکہ نہیں ہوتا۔ (تاریخ دعوت و عزیمت)حضرت شیخ الہند کی تواضع اور کسر نفسی شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسنؒ پر تواضع اور عبدیت بہت غالب تھی، لکھا ہے کہ اس زمانے میں اکثر مساجد میں کسیر بچھا دی جاتی تھی، جو نرم بھی ہوتی تھی اور گرم بھی ،یہ گھاس تالابوں میں پیدا ہوتی ہے، جب سوکھ جاتی ہے تو لوگ اسے بچھانے کے لئے لے آتے تھے، اسے دیہات کا قالین یا نرم گدہ سمجھنا چاہئے حضرت کی مسجد میں بھی سردیوں میں برابر اس کا فرش ہوتا تھا، موسم سرما آنے پر ایک دن خود ہی طلبہ سے فرمایا کہ آئو بھئی مسجد کے لئے کسیر لے آویں، چار طلبہ ساتھ ہولئے،انہیں حضرت اپنے باغ میں لے گئے ، وسط باغ میں تالاب بھی تھا اور اسپر کسیر بکثرت پیدا ہوتی تھی، چنانچہ وہ گھاس کاٹی گئی، خود حضرت بھی درانتی