اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
سامضمون صحیح ہے ، کون سا غلط ہے۔ ۱) کسی غلط بات کو صحیح سمجھ کر عقیدہ یا عمل میںخرابی کر بیٹھتے ہیں۔ ۲) بعض اوقات پہلے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ امر غلط ہے مگر بعض مصنفین کا طرز بیان ایسا تلبیس آمیز یا دل آویز ہوتاہے کہ دیکھنے والا فی الفور اس سے متاثر ہوجاتا ہے او راس کے مقابلہ میں اپنے پہلے اعتقاد کوضعیف اوربے وقعت خیال کرکے اس کو غلط اور اس کو صحیح سمجھنے لگتا ہے۔ ۳) اور بعض دفعہ اس کو گو قبول نہیں کرتا ، مگر اور مذبدب ہوکر شک میں پڑکردل میں رکھتا ہے اورپریشان ہوتا ہے۔ اس طرح کی بہت ساری مضرتیںہیں، لہٰذا ہر کتاب کا استاذ کی صلاح کے بغیر مطالعہ شروع نہ کردے۔ (اصلاح انقلاب امت)آج کل کے طلبہ کا حال حضرت اقدس شاہ وصی اللہ صاحبؒ فرماتے تھے کہ اس زمانے میں مدارس عربیہ کے طلبہ میں بھی آزادی آگئی ہے، کسی کے تابع رہنا نہیں چاہتے، نہ کسی قاعدہ قانون کی پابندی کرنا چاہتے ہیں، خودبینی ، خودرائی کے شکارہوچکے ہیں ، ان کے نزدیک نہ کوئی چھوٹا ہے اورنہ بڑا، ان کو کسی کا ادب ہے نہ لحاظ ، اپنے نفس کے گھوڑے پر سوار ہیں ، جدھر لے جاتا ہے ، ادھر چلے جاتے ہیں ، گویا ان پر ان کا نفس مستولی ہے ، طبیعت ان پر غالب ہے، جو اس کا تقاضا ہوتاہے اسی کے مطابق عمل کرتے ہیں، اسی کا نتیجہ ہے کہ ہرسال باوجود صدہاطلبہ کی فراغت کے کام کے عالم نظر نہیں آتے، نہ تو علمی استعداد معلوم ہوتی ہے اورنہ عملی قوت وصلاحیت کا پتہ چلتا ہے، غرض قوت علمیہ وعملیہ دونوں ہی کا فقدان ہے، تو پھر کام ہوتو کیسے ہو، العیاذ باللہ۔ (تذکرہ مصلح الامۃ)