اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
کَانَ اَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہَ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَبَرَّالْاُمَّۃِ قُلُوْبًا وَاَعْمَقَھَا عُلُوْماً وَاَقَلَّھَاتَکَلُّفاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ امت میں سب سے زیادہ پاکیزہ دل اور علم ان کا سب سے گہرا اور تکلف برائے نام نہیں علمی ذوق و شوق اور طلب کا یہ حال تھا کہ ایک ایک حدیث کو حاصل کرنے کے لئے عرب سے دمشق ،مصر اور شام اور ان کے علاوہ دور دراز تک کے سفر کرتے تھے، صرف اسلئے کہ حدیث پاک کو اس شخص کی زبان سے سنے جس نے براہ راست حضورؐ سے سنی ہے، ایسے ایک دو نہیں ہزاروں سینکڑوں واقعات کتب حدیث میں موجود ہیں، بخاری شریف میں ہے۔ رَحَلَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِاللّٰہِ مَسِیْرَۃَ شَھْرٍاِلٰی عَبْدِاللّٰہِ بْنِ اُنَیْسٍ فِیْ حَدِیْثٍ وَاحِدٍ حضرت جابر بن عبداللہ ایک حدیث کے لئے ایک ماہ کا سفر کرکے عبداللہ بن انیس کے یہاں (ملک شام) گئے اس سفر کی تفصیل خود حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک صحابی سے ایک حدیث سنی تو سواری کرکے ملک شام گیا اور عبداللہ بن انیس کے دروازہ پر جاکر کہلوایا کہ جابر دروازے پر کھڑا ہے، ملازم نے اندر سے پوچھا کون؟ جابر بن عبداللہ؟ میں نے کہا ہاں! اسنے عبداللہ بن انیس کو میرا نام بتایا تو وہ باہر آئے اور ہم دونون نے گرم جوشی سے سلام و معانقہ کیا، اس کے بعد میں نے کہا کہ آپ کے واسطے سے مجھے ایک روایت پہنچی ہے جس کو آپ نے براہِ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے اور میں نے آپ سے نہیں سنا ہے، اس پر عبداللہ بن انیس نے مجھے وہ حدیث سنا دی۔ (جامع بیان العلم) ابو سعید اعمی سے روایت ہے کہ حضرت ابو ایوب انصاری نے مدینہ سے مصر