اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
حضرت سمرہ بن جندبؓ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لڑکا تھا ، آپؐ کے اقوال واحادیث کو یاد کرتا تھا، مجلس نبوی میں مجھ سے زیادہ عمر والے لوگ ہوتے تھے اس لئے میں بات نہیں کرسکتا تھا، (خیرالقرون بحوالہ بخاری و مسلم) حضرت جندب بن عبداللہ بجلی کہتے ہیں: کُنَّا عَلٰی عَہْدِالنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غِلْمَانًا حَزَاوِرَۃً تَعَلَّمْنَا الْاِیْمَانَ قَبْلَ اَنْ نَتَعَلَّمَ الْقُرْآنَ فَازْدَدْنَـا بِـہٖ اِیْمَاناً ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں طاقتور و توانا لڑکے تھے ،ہم نے قرآن پڑھنے سے پہلے ایمان سیکھا، پھر قرآن پڑھاجس کی وجہ سے ہمارا ایمان اور پختہ ہوگیا، (ایضاً) حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت میں کمسن (نوعمر) تھا، اپنے ایک ہم عمر انصاری لڑکے سے میں نے کہا چلو اصحاب رسول اللہؐ سے علم حاصل کریں، کیوں کہ ابھی وہ بڑی تعداد میں ہیں، انصاری نے جواب دیا ابن عباس! تم بھی عجیب آدمی ہو اتنے صحابہ کی وموجودگی میں لوگوں کو بھلا تمہاری کیا ضرورت پڑیگی، اس پر میں نے انصاری لڑکے کو چھوڑ دیا اور خود علم حاصل کرنے میں لگ گیا، بارہا ایسا ہوا کہ معلوم ہوتا کہ فلاں صحابی کے پاس حدیث ہے، میں ان کے گھر دوڑ جاتا، اگر وہ قیلولہ میں ہوتے تو میں اپنی چادر کا تکیہ بنا کر ان کے دروازہ ہی پر پڑا رہتا ،گرم ہوا میرے چہرے کو جھلساتی رہتی، جب وہ صحابی باہر آتے اور مجھے اس حال میں پاتے تو متاثر ہوکر کہتے رسول اللہ کے ابن عم! آپ کیا چاہتے ہیں ؟ میں کہتا سنا ہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فلاں حدیث روایت کرتے ہیں، اسی کی طلب میں حاضر ہوا ہوں