اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
لئے نہیں رکھاتھاکہ میں تمہیں عذاب دوں،جاؤ میں نے تم سب کی مغفرت کردی۔ (طبرانی) حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ مسجدمیںتشریف لائے، دوجماعتیں دیکھی ، ایک علم کے سیکھنے سکھانے میں مشغول تھی اور دوسری ذکر ودعا میںمشغول تھی۔ آپؐ نے فرمایا دونوں بھلائی پر ہے۔ بہرحال یہ جماعت پس وہ اللہ کی یاد میںمشغول ہے اوریہ جماعت علم کو سیکھتی اور دوسروں کو سکھاتی ہے ۔ یہی جماعت افضل ہے کیونکہ میرامقصد بعثت بھی تعلیم ہی ہے ۔ ’’اِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا‘‘ پھر آپؐاسی جماعت کے ساتھ بیٹھ گئے ۔ کندہم جنس باہم جنس پرواز‘‘ خیال کرنے کی بات ہے کہ اہل علم کی اس سے بڑھ کر کیا فضیلت ہوگی کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کو ان لوگوں میںشمار کیا۔ گدایاں را ازین معنی خبرنیست ٭ کہ سلطان جہاں باما است امروز درویش علم والوں کو اس کی خبرنہیں کہ دونوں جہاں کے بادشاہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ رونق افروز ہیں۔ (اخلاق العلماء) حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوذر! تم صبح اس حال میں کرو کہ کتاب اللہ کی ایک آیت سیکھو ، یہ تمہارے لئے سو رکعت پڑھنے سے بہترہے اور تم صبح اس حال میں کرو کہ علم کا ایک باب سیکھ لو، خواہ اس پرعمل ہو یا نہ ہو ،یہ تمہارے لئے ایک ہزار رکعت پڑھنے سے بہترہے ۔ حضرت ابوسعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ میںمنتہائے مہاجرین کی جماعت میںتھا، ہم لوگوں کو ایک قاری قرآن سنارہا تھا۔ اسی حال میںرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ، پوچھاتم لوگ کیا کررہے ہو؟ ہم نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہ اَنَّہٗ کَانَ قَارِیٌ ٭ یارسول اللہ! ہمارا ایک قاری