اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
ہے کہنے والے نے بالکل صحیح منظر کشی کی ہے۔ اٹھامیں مدرسہ و خانقاہ سے نمناک نہ زندگی ، نہ محبت ، نہ معرفت نہ نگاہ بہت دنوں سے میری خواہش تھی کہ ہمارے اکابرواسلاف کی طالبعلمانہ زندگی کی روشنی میں طالبعلمی کے کچھ اصول و آداب اور کچھ وہ بنیادی امور جو ان کی زندگی میں نمایاں تھے مختصر طور پر بیان کروں جو طلبہ کے لئے رہنما ثابت ہوں اور مدارس دینیہ میں علوم نبوت حاصل کرنے والے پروانے ان اصول وآداب پر عمل پیراہوکر اپنی طالبعلمی کی زندگی کو کامیاب بناسکیں اور اپنی مخفی صلاحیتوں اور قابلیتوں کو اجاگر کرکے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت کا فریضہ باحسن وجوہ انجام دے سکیں۔ مگر ایک طرف اپنی علمی کم مائیگی اور تہی دامنی کی وجہ سے ہمت پست ہورہی تھی، کیونکہ تصنیف وتالیف کا کام ہے ہی کچھ ایسا جس کی نزاکتیں واقفین سے مخفی نہیں، لیکن ساتھ ہی مخلص احباب کے اصرار نے اور میرے محسن ومشفق حضرات اساتذۂ کرام بالخصوص حضرت مولانا عبدالقادر صاحب پٹنی ثم ندوی دامت برکاتہم اور حضرت مولانا محمدیٰسین صاحب زیدمجدہٗ مہتمم مدرسہ جامعہ نذیریہ کاکوسی (پالن پور) کے ہمت افزا کلمات نے بہت زیادہ حوصلہ افزائی کی اور اس خدائے برتر کے نام سے جو ذرہ سے پہاڑ کا کام لے سکتا ہے باوجود تدریسی مشاغل کے تدریجی طور پر کام شروع کردیا، الحمدللہ بحسن وخوبی کام شروع تو ہوگیا اور تقریباً دوثلث مسودہ تیاربھی ہوگیا مگر اس کے بعد’’ الامر مرہون بالقدر ‘‘کے تحت کچھ عوارض کے سبب مسودہ یونہی پڑارہا اور ایک عرصہ تک تکمیل کے مراحل نہیں طے کرسکا، اس کے بعد پھر توفیق ایزیدی شامل حال ہوئی اور مسودہ پر نظر ثانی کی گئی اور بقیہ حصہ قریب قریب پورا ہوا ،پھر اس پر ایک وقفہ اور گذرااسکے بعد تیسرے مرحلہ میں پہنچ کر کام بفضلہ تعالیٰ مکمل ہوا اور یہ چند اوراق تیار ہوئے اور طباعت کے مرحلہ میں پہنچے تو