اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
اپنی خداداد نورِ بصیرت اور اپنے تصرف باطنی سے تاڑ لیا تھاکہ انہی مدارس کے ذریعہ مسلمانوں کے قلب ودماغ کی تیرگی دور کی جاسکتی ہے اور اسلام کی شعائیں پھیلائی جاسکتی ہیں، اس کے ذریعہ علم وعرفان کی شمعیں روشن ہوسکتی ہیں اور مردہ رگوں میں نورایمانی گردش کرسکتا ہے ، اسی کے ذریعہ اپنی شعور کی بیداری اور سنت نبوی کا احیاء ہوسکتا ہے اور ضلالت وگمراہی کے گھٹاٹوپ اندھیرے چھٹ سکتے ہیں، اور شرک وبدعات کا خاتمہ ہوسکتا ہے اور اسی سے ابوبکر وعمر ، علی وعثمان ، طلحہ وزبیر معاذو عبدالرحمن ، خالد وطارق ، الف ثانی و ولی اللہ ، امداد اللہ وقاسم ، رشید وتھانوی کی روح پرور اور ایمان افروز زندگی کا نقشہ دنیا کے سامنے آسکتا ہے ، اور دنیا کی کایا پلٹنے میں اکسیر ثابت ہوسکتا ہے، چنانچہ ان کی بے لوث قربانیوں اور ان کے خلوص اور دینی ولولہ نے دنیا ئے اسلام میں غلغلہ پیدا کردیا ، بجھی ہوئی ایمانی شمعیں روشن ہونے لگیں، سینوں میں عزائم پیدا ہونے لگے، توحید ورسالت کے امین ونگہبان پھر سربکف ہوکر دنیا میں نظر آنے لگے، ان کی علمی ، دعوتی اور تبلیغی سرگرمیوں نے بیشمار خلق خدا کو کفروشرک اور بدعات کی تاریکیوں سے نورایمانی کے دائرے میں داخل کردیا اور ایسے حیرت انگیز کارنامے انجام دئے جو تاریخ میں سنہری نقوش سے ثبت ہیں۔ لیکن افسوس زمانہ جوں جوں بڑھتا جارہا ہے حقیقت نکلتی جارہی ہے، مدارس سے نکلنے والے اور سند فراغت حاصل کرنے والے فضلاء کرام کی اکثریت ایسی ہوتی ہیں جن میں کسی طرح کا شعور نہیں ہوتا، نہ ان میں وہ علمی قابلیت ہوتی ہے جس سے وہ امت کی قیادت کا فریضہ انجام دے سکیں اورنہ ہی عملی پہلو اور اخلاقی زندگی اس پایہ کی ہوتی ہے جو خود انہیں سنبھال سکے ، سالہاسال وہ علمی اور دینی ماحول میں ، قال اللہ اور قال الرسول کی فضا میں گذارنے کے بعد بھی بالکل تہی دامن ہوتے ہیں اور فارغ ہونے والوں کی تعداد آج اتنی ہے جتنی اس سے پہلے کبھی نہیں تھی اور حال یہ