اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
صحیح لطف اٹھا سکے اور اپنے رب حقیقی کی معرفت تک اس کی رسائی ہوسکے، سب سے آخر میں نبی آخر الزماں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لائے اور آپؐ نے اپنے تیئس ؍۲۳سالہ دورِ نبوت میں انفرادی اور اجتماعی محنت سے ایک معتدبہ مجمع تیار کیا جو سر تا پادین اور علم وعمل کا مجسمہ تھا، چونکہ آپؐ آخری نبی تھے، آپؐ پر نبوت کا دروازہ بندہوگیا، اس لئے اب نبوت کی تمام تر ذمہ داریاں اور قیامت تک اسلام کی نشرواشاعت ، امت کی فلاح وبہبودی اور بھٹکی ہوئی انسانیت کو جادۂ مستقیم پر گامزن کرنا اور ہر دور میں اٹھنے والے فتنوں اور طاغوتی طاقتوں کی سرکوبی اور ہرطرح کی علمی ، عملی ، جانی ، مالی قوتوں سے ان کا مقابلہ ،احقاق حق اور ابطال باطل یہ تمام ذمہ داریاں وارثین انبیاء حضرات علماء کے سروں پر رکھی گئیں ۔ چنانچہ حضرات صحابۂ کرام ؓنے جو آپؐ کے اولین وارث تھے اس ذمہ داری کو بحسن وخوبی پوراکیا، ان کے بعد تابعین تبع تابعین پھر ان کے بعد عہدبہ عہد ہردور میں علماء کرام نے اپنی ذمہ داریوں کو کامل طریقہ پر پورا کیا۔ تاریخ کی ورق گردانی کرنے والوں پر یہ بات مخفی نہیں کہ ملت اسلامیہ کو جس موڑ پر جیسے رجال کار کی ضرورت پڑی اس موڑ پر علماء ربانیین سرگرم عمل رہے اور پوری جدوجہد کے ساتھ طاغوتی اور صیہونی فتنوں کی سرکوبی کی اور امت مسلمہ کی زمام قیادت کو بحسن وخوبی سنبھالا اور ملت اسلامیہ کی دکھتی نبض پر اپنا ہاتھ رکھا۔ مدارس عربیہ اور مکاتب دینیہ کا قیام بھی دراصل انہی اکابرواسلاف کی جانکاہ کوششوں کا ثمرہ ہے، جن کا مقصد اسلام کی حفاظت ، اس کی نشرواشاعت اور ایسے رجال کار کو پیدا کرنا جو ملت اسلامیہ پر آنے والے حالات اور داخلی وخارجی خطرات کا دفاع کرسکیں ،اسلام دشمن طاقتوں اورفتنوں کا سدباب کرسکیںاور امت مرحومہ کی زمام قیادت سنبھال سکیں اور یہ بات اس کے بغیر دشوارتھی ، انہوں نے