عہدِ صحابہ میں اہتمامِ جماعت:
سید الکونین ﷺ نے جب قول وفعل دونوں سے دینی شیرازہ بندی اور اجتماعی نظام کی تاکید فرما دی، تو پھر آپ کے وہ چاکر جنھوں نے آپ پر اپنی جانیں نثار کیں اور اسی کو اپنی زندگی کا ماحصل اور سرمایہ جانا، اور جن پر آپ کی نگاہِ لطف وکرم بھی پڑچکی تھی، کیوں کر آپ کی
ایک ایک ادا پر جان نہ دیتے۔ حق یہ ہے کہ شیفتگانِ رسول ﷺ نے حق ادا کردیا، آپ جو راہِ حق بتا گئے زندگی کی اخیر سانس تک اس پر عمل پیرا رہنے کی سعیٔ پیہم جاری رکھی، اور دین کے ایک ایک مسئلے پر عمل کر کے ثبتِ دوام حاصل کرگئے۔
مسجدوں میں جماعت کی نماز اسی اہمیت اور ہیٔت کے ساتھ قائم کرنے کی کوشش کی، جو دین کا مطالبہ اور عاشقانِ رسول کا شیوہ تھا، اسی وقت استقصا مقصود نہیں ہے، بلکہ چند صحیح واقعات ثبوت میں پیش کرتے ہیں:
حضرت امِ دردا ؓ کہتی ہیں: ایک دن حضرت ابودرداء غصے کی حالت میں تشریف لائے۔ میں نے پوچھا: کیا بات پیش آئی کہ اس قدر رنجیدہ اور غضب ناک ہیں۔ فرمانے لگے: خدا کی قسم! میں امتِ محمدیہ میں بجز اس کے کچھ نہیں پاتا ہوں کہ باجماعت نماز پڑھی جائیں اور اب دیکھتا ہوں کہ لوگ اسے بھی ترک کرنے پر اُتر آئے ہیں۔1
فاروقِ اعظم ؓ جماعت کی نماز کے عاشق تھے اور آخر کار اسی عشق میں جان دی، آپ کا یہ حال تھا کہ اگر کسی کو مسجد میں جماعت کے ساتھ نہیں پاتے تھے تو اس کے یہاں خود پہنچ کر وجہ دریافت فرماتے، اور عذر معقول نہ پاتے تو اپنی خفگی کا اظہار فرماتے۔ ایک دن آپ نے کچھ لوگوں کو غیر حاضر پاکر فرمایا: کیا بات ہے کہ وہ لوگ جماعت کے لیے مسجد نہیں آتے، ان کی دیکھا دیکھی اور لوگ بھی ایسا کرنے لگیں گے، ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ یا تو وہ بپابندی مسجد آیا کریں، ورنہ میں ان کی طرف ایسے اشخاص کو بھیجوں گا جو ان کی گردنیں مار دینگے۔ پھر آپ نے فرمایا: جماعت کی نماز کے لیے مسجد آیا کرو۔ یہ اخیر جملہ آپ نے تین بار فرمایا۔2
انہی حضرت عمر ؓ کا واقعہ ہے کہ آپ نے ایک دن صبح کی نماز میں سلیمان بن ابی حتمہ ؓ کو نہیں پایا (یہ جماعت میں کسی وجہ سے نہیں پہنچ پائے تھے) آپ کسی کام سے بازار تشریف لے جارہے تھے، حضرت سلیمان ؓ کا گھر راستے ہی میں پڑتا تھا، چناں چہ آپ ان کی ماں حضرت شفاء ؓ کے پاس گئے اور ان کی غیر حاضری کی وجہ دریافت کی۔ ان کی ماں نے بتایا: بات یہ ہوئی کہ سلیمان نے قیامِ لیل (تہجد) میں رات گزاری، اتفاق کی بات اخیر شب میں نیند کا غلبہ ہوگیا اور بلا قصد وارادہ